1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ابرار حسین/
  4. دوسری کامیاب سیاسی سرجیکل سٹرائیک

دوسری کامیاب سیاسی سرجیکل سٹرائیک

28 مئی 2017 کو پہلی کامیاب سرجیکل سٹرائیک کے بعد دوسری کامیاب کاروائی 12 مارچ کو سینٹ الیکشن میں نظر آئی جب تمام سیاسی جمہوری اصول اور ضوابط کو پامال کر کے ایک آزاد رکن سینٹ کو چیرمین بنوا دیا گیا ویسے تو یہ موو اکثر بیشتر ہوتی رہتی ہیں مگر ہم جیسے عام عوام کو انکے اثرات نظر نہیں آتے۔ مسلم لیگ نون 1999 کے بعد سے مقتدر حلقوں کو قبول نہیں رہی مشرف نے اپنے طور پر نون لیگ کو اتنا توڑ پھوڑ دیا تھا کہ اب یہ کبھی اقتدار تو کیا ایک پریشر گروپ کے طور پر بھی اپنا کردار ادا نہیں کر پائے گی اسی زعم میں مشرف نے محترمہ بے نظیر سے این آر او کر کے مستقبل کی حکومت کے خد و خال طے کیے جس میں بینظیر وزیراعظم اور مشرف نے صدر بننا تھا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد حالات تیزی سے بدلے نواز شریف نے اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور سیاسی روایات کا اعلی نمونہ پیش کرتے ہوئے محترمہ کی شہادت کے موقع پرراولپنڈی ہسپتال پہنچے اور سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے غم سے نڈھال جیالوں کی اشکشوئی کی انہیں حوصلہ دیا اور الیکشن کے بائیکاٹ کا بھی عندیہ دیا جسے پی پی کی اعلی قیادت نے مسترد کیا اور ہمدردی کا ووٹ سمیٹنے کی غرض سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور2008 میں مرکز میں نون لیگ کی حمایت اور سندھ میں ایم کیو ایم کے پی کے میں اے این پی کی حمایت سے حکومتیں بنائیں پنجاب کے عوام نے نواز شریف کی محترمہ کے جیالوں کے ساتھ مشکل وقت میں ہمدری اور اصول پسندی کی قدر کرتے ہوئے ووٹ کے زریعے پنجاب میں نون کو حکومت بنانے کا موقع دیا۔ گیلانی حکومت بننے کے بعد نوازشریف نے اپنے اصولوں کا تذکرہ زرداری صاحب سے کیا اور وعدہ نبہانے کا کہا کہ ججوں کی بحالی ہونی چاہیے جس وعدے پر مرکز میں کولیشن بنی تھی۔ زرداری صاحب وعدہ وفا کرنا چاہتے تھے مگر ایوان صدر میں بیٹھے مشرف نے ججوں کو برطرف کیا تھا اور مقتدر حلقوں کے نمائندے کے طور پر وہ یہ ماننے کیلیے تیار نہ تھے دوسری بار کے مزاکرات میں تو زرداری صاحب نے ججز بحالی وعدہ سے مکمل انکار کردیا تب نون لیگ کو لیشن سے باہر آکر وکلا تحریک کی صف اول میں کھڑی ہو گئی اور لانگ مارچ کے زریعے ججز بحال کرانے کے اپنے واعدہ کی تکمیل کرائی تو مشرف اور انکے آقاوں کو مناسب وقت تک بادل نخواستہ خاموشی اختیار کرنے پڑی اور یہ تشویش ایک بار ضرور ہوئی کہ نواز شریف کو ہم نے سیاست سے آوٹ کر دیا تھا یا سمجھ لیا تھا یہ پھر دردسر بنتا جارہا ہے اور اسکا راستہ روکنے کا کوئی بندوبست کیا جائے۔ اس سکیم پر عمل درآمد ہم جیسی سادہ عوام نے لاہور مینارپاکستان کا جلسہ دیکھا۔ جس بندے سے پندرہ سال تک کسی جلسے کے لیے پندرہ ہزار بندے اکٹھے نہیں ہوتے تھے اسنے 2008 کے الیکشن کا بائیکاٹ کرکے عوام کی کونسی خدمت کردی تھی کہ شاہ محمود قریشی، علیم خان، جہانگیر ترین، اعظم سواتی وغیرہ وغیرہ سب الیکٹیبل اسکے ساتھ جمع ہونے شروع ہو گئے اور لاکھوں کا جلسہ کرلیا پھر اگلا جلسہ کراچی کا بھی کرادیا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی قاف لیگ پر سرجیکل سٹرائیک کی گئی تاکہ نواز شریف کا راستہ 2013 کے الیکشن مین بھی روکا جا سکے تمام میڈیا مقتدر قوتوں کے گھوڑے کی تعریفوں کے پل باندھ کر عوام کو گمراہ کرتا رہا جس سے پاکستان کا نوجوان طبقہ یقینا گمراہ ہوا اور اسنے اپنی بساط سے بڑھ کر اس پلانٹڈ گھوڑے کو سپورٹ اور ووٹ کیا جسکے نتیجہ میں 76 لاکھ ووٹ اور 26 سیٹیں بھی حاصل ہوئیں مگر جس مقصد کیلیے میدان میں اتارا تھا وہ مقصد تو حاصل نہ ہوا وہ دردسر پھر سر پر آن بیٹھا جو کسی صورت منظور نہیں تھا نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ لہذا اسی گھوڑے کو دوبارہ نئی ریس میں دھاندلی کے نام پر اتارا۔ زرداری صاحب پر سابقہ دور میں نوازشریف کے کیے گئے احسانات نے یہ سرجکل سٹرائیک بھی ناکام بنا دی۔ کچھ توقف کے بعد نئی سرجیکل سٹرائیک کی تیاری ہوئی تو فرنٹ پر پھر یہی گھوڑا آزمایا گیا سازوسامان نیا دیکر یعنی ( پانامہ) گیم کی سرجیکل سٹرائیک یہ بھی جب ناکامی کے منطقی انجام کو پہنے والی تھی تو رات و رات اقامہ کا میزائیل مار کر اسکو کامیابی میں تبدیل کیا گیا اور سمجھ لیا گیا کہ باقی کامیابیاں خود جھولی میں گریں گی مگر یہ 1999 تو تھا نہیں بقول سعدرفیق یہ لوہے کے چنے ہی ثابت ہو رہیے ہیں 1999 سے لیکر ابھی تک ایک چنا نہ نگلا گیا ہے نہ اگلا گیا ہے۔ 28 جولائی 2017 تک تو نون لیگ کے پاس سیاست کرنے کے بہت سے آپشن تھے جن میں چوہدری نثار اور شہباز شریف والا مفاہمت کا آپشن بھی تھا مگر نوازشریف کی بلاجواز نااہلی اور شریف خاندان نون لیگ کو دیوار سے لگانے کی جو مختلف سکیمیں روزانہ کی بناد پر سامنے آرہی ہیں اور سرجیکل سٹرائیکس ہو رہی ہیں اب انکے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے مزاحمتی سیاست۔ کیونکہ انکے مخالفین کی تمام سیاسی پارٹیاں مقتدر حلقوں کے کیمپ میں جاکر کھڑی ہوگئی ہیں اور شاہ سے زیادہ وفاداری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ہم جیسی جاہل عوام نے 28 جولائی کے بعد مشورہ جی ٹی روڈ کا دیا تھا جو کامیاب بھی رہا اور وہ مزاحمتی بیانیہ انکی عوامی طاقت میں بدل گیا ہے جسکا سارہ کریڈٹ میں مریم نواز کو دیتا ہوں جس انداز سے وہ تقریر کرتی ہیں وہ عوام کے دل اندر اثر چھوڑتی ہے دوسراکریڈٹ شریف خاندان کے پاکستان میں موجود تمام افراد کو جاتا ہے کہ میڈیا کے منافقانہ پرگراموں کے باوجود نہ صرف اپنے خاندانی اتحاد کو قائم رکھا بلکہ اپنے جماعت کو بھی قائم رکھا یہی کامیابی کا راز بھی ہے مگر ابھی سخت امتحان باقی ہیں جو آنے والے ہیں جن میں نیب مقدمات کے فیصلے جیلیں نئے مقدمات نگران حکومت کے دور میں جلسے جلوسوں کو محدود کرنے کیلیے سیکورٹی کے بہانے ڈراو دھمکاو کے حربے مخالف میڈیا کمپین اور بہت سارے مسائل ہونگے جنکے لیے مضبوط اعصاب رکھ کر سب لوگ اسی بیانیے پر عمل پہراہ ہونگے تو انکی بھی فتح ہو گی اور پاکستانی عوام کی بھی سترسال بعد فتح ہوگی نون لیگ کے پاس ایک ہی آپشن ہے اس نظام سے لڑنا جیت گئے تو غازی ہار گیے تو شہید۔ پارٹی کے اندر بھی یہ بات ان لوگوں کو سمجھانا پڑے گی کہ مفاہمت کا آپشن بے سود ہے کیونکہ مخالفین نے آپکی پارٹی کو ختم کرنے کا مصمم ارداہ کیا ہوا ہے چاہے اسکی انکو کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ ابھی تک تو سرجیکل سٹرائیک ہورہی ہیں آنے والے وقت میں مکمل جنگ کو خارج از ا مکان نہ سمجھا جائے۔ یہ عوامی جمہوری جنگ نون لیگ کو اکیلے ہی لڑنا پڑےگی رابطہ سب سے رکھیں مگر بھرسہ صرف اللہ کی ذات سے رکھیں اور آگے بڑھیں عوام کے ساتھ کچھ جمہوری قوتیں آپکے ساتھ کھڑی بھی ہونگی مگر انکا کردار سمبولک ہی ہوگا۔ عوام کے علاوہ نون کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہیں آرہا اسوقت ہاں اس ریفرنڈم کو جیتنے کیبعد جمہوریت کا پھل کھانے کیلیے بہت سی آج کی مخالف پارٹیاں بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہوجائیں گی مگر کوئی بات نہیں جمہوریت صرف نون لیگ کی تو نہیں ہے اسے سالیبریٹ کرنے کا حق سب کا ہے انکو بھی ویلکم کرنا ہوگا مگر اپنے کارڈ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے۔ لائن ڈرا ہوچکی ہے اصول کی اور مفادات کی آپ نے خود ہی تو یہ لائن اختیار کی ہے جوکہ اصولی طورپر درست بھی ہے عوام کی ضرورت بھی ہے اور اپکا واحد آپشن بھی ہے۔ ویسے بھی پاکستانی عوام کا مزاج ہے کہ وہ ظالم اور طاقتور کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو پذیرائی بخشتی ہے۔ عوام مایوس نہیں ہے اپنے کردار سے مگر رابطہ نون لیگی قیادت نے کرناہے کراچی سے گلگت بلتستان تک گوادر سے کشمیر تک۔ محنت بہت ہے مگر اس ریفرنڈم کو کامیاب بنانا ناممکن نہیں۔ نون لیگ کے لیے ریفرنڈم۔ دوسری پارٹیوں کے لیے جنرل الیکشن 2018۔