1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ابرار حسین/
  4. سیاسی گیم آن ہے

سیاسی گیم آن ہے

کچھ سیاسی تجزیہ نگار 2014 دھرنے کے دوران جب سرکاری عمارتوں پر یلغار ہوئی اور نظام حکومت کو مفلوج کر دیا تو کہ رہیے تھے ( گیم اور) مگر میرا اسرار اس وقت بھی یہی تھا کہ گیم آن ہے۔ پھر جب ڈان لیکس ہوئی تو اس وقت بھی یہی رٹ لگی رہی کہ گیم اور پھر جب نون لیگ کے سنیٹر نہال ہاشمی نے نشتر سے کچھ تیر نکال کر برسائے تو بھی یہی راگ الاپا جاتا رہا گیم اور۔ کسی نے کہا کہ ان کا سینٹ کا دورانیہ پورا ہوگیا ہے اس لیے کیا ہے اسکا استیفا لیا گیا میں نے اس وقت بھی یہی عرض کیا تھا کہ یہ جزباتی پریس کانفرنس نہیں ہے یہ پالیسی کا حصہ ہے جب دباو حد سے بڑھنے لگتا ہے تواس کا ردعمل آتا ہے اور یہ صرف نون لیگ نے ایک معولی پتہ شو کیا ہے مناسب وقت پر مذید کارڈ شو کریں گے۔ دوسری طرف نون لیگ کے مخالفیں اپنے کارڈ 2014 سے سرعت سے کھیل رہیے ہیں اور آج 3 جنوری 2018 تک کھیل رہے ہیں مگر ان کا ایک کارڈ کارگر ثابت ہوا جو نوازشریف کو منصب سے اتار لیا اسی چکر میں سارے کارڈ بھی شو کرا بیٹھے۔ یقینن یہ بہت بڑا کام کیا تھا اور سابقہ روایات سابقہ نون لیگ اور سابقہ غیر مقبول حکومتوں کی طرح نوازشریف کی یہ حکومت ہوتی تو اس سےبڑا اور کامیاب کارڈکوئی ہو ہی نہی سکتا تھا اور مخالفیں کو مقاصد حاصل کرنے میں چنداں دیر نہی لگنی تھی۔ مگر دوسری طرف نون لیگ نے اپنے کارڈز پر نظر رکھتے ہوئے انہیں جلدبازی میں استعمال تو کیا شو بھی نہی کیا۔ نہال ہاشمی کے پتے کے بعد خاموشی سے گیم کو لمبا کرتے گیے اور 28 جولائی آگیا جو سب سے مشکل وقت تھا نون لیگ پر جب نوازشریف سیاسی عرش سے اتر کر سیاسی فرش پر آگیا۔ اور ہم جیسے لوگوں کو بھی یہ لگ رہا تھا کہ اب سارے کارڈ شو کر دیں گے مگر ایسا نہی ہوا دوسرا پتہ شوکیا شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا کر 45 دن کا۔ تیسرا پتہ شوکیا کہ خاموش نہی رہنا جی ٹی روڈ سے لاہور جانا ہے اور یہ بتانا ہے مجھے کیوں نکالا مشہور زمانہ ڈائیلاگ۔ یہ پتہ بھی بڑا ہی کامیاب رہا اس پتے نے پارٹی کے اندھام کو یکسر بچا لیا۔ اور لاہور جاکر پینتالیس دن والے وزیراعظم کو آنے والے الیکشن تک مستقل کر دیا پنجاب کی اکھاڑبچھاڑ سے بھی پارٹی کو بچا کر کلثوم نواز کو این۔ اے 120 کا ٹکٹ دیکرعوامی اور اعتماد حاصل کرکے مخالفیں کو ان کے اپنے پسندیدہ گیم سے بیزار کر دیا۔ مگر مخالفین نے تو شیروانیاں سلوا رکھی ہیں وہ کب ہار مانتے ہیں۔ گیم آن ہے۔ کچھ اینکر حضرات قسمیں کھا کر کہتے رہیے اب نواز واپس نہی آئے گا جب پہلے بار فرش پر آنے کیبعد بیرون ملک گیا واپس آیا نیب کورٹ میں پیش ہوا ایک آدھ جلسہ کیا بیانیہ مضبوط کیا پھر باہر گیا پھر اینکرز اور مخالفین نے قسمیں کھائی اب نہی آئے گا ڈرگیا ہے سامنا نہی کر سکتا اسی اثناء میں فیض آباد والا فساد بھی کروادیا اس سے جو فائیدہ جس کو ہوا وہ بھی عوام نے دیکھ لیا میرے حساب سے تو پاکستان کو ہی نقصان ہوا ہے فائیدہ کسی کو نہی ہوا نوازشریف کے جانے کیبعد ایک حکومت موجود ہونے کا جو تاثراندرون ملک اور بیرون ملک تھا وہ بھی ختم ہو گیا ہے اس فیض آباد فساد سے۔ تب ہی تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس حد تک گرے ہوئے الزام لگا رہا ہے اسکو اندازہ ہے کہ یہاں کوئی حکومت نہی ہے اور افراتفری مچی ہوئی ہے اور طاقت کا توازن طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے تو اچھا موقع ہے کہ اپنی باتیں منوا لیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ کےلیے سب سے مشکل صورتحال ہوگیی تھی بقول شخصے گیم آن ہے میں شوقیا بوٹ گندے جو کروائے تھے فیض آباد فساد میں۔ تو انہوں نے تو اس سنگین صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اس شوق سے کنارہ کشی کرلی جس کا ثبوت سینٹ میں آکر دے دیا۔ اب اس دوران نون لیگی قیادت کی سعودی یاترا ہوئی اب اینکرز اور سیاسی مخالفین کی کامیابی کی تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں اور یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ وہاں کیا کرنے گیے ہیں۔ کیوں بلایا ہے۔ اب اصل میں ان کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہو جائیں گے دھاندلی کا رونا اب رو نہی سکیں گے دوسری بار۔ الیکشن بھی پچھلے دفعہ کی نسبت زیادہ شفاف ہونے کے چانس زیادہ ہیں الیکشن کمیشن طاقتور ہو گیا ہے۔ آروز پہلے کی نسبت زیادہ محتاط ہونگے۔ اس لیے اب نیی کوشش میں لگ گیے ہیں کہ کوئی ایسا طریقہ نکلے کہ شریف رجیم کا سفایا ہو جائے جس کے لیے قادری صاحب اور سیالوی صاحب سے کوئی تعویز اور دم کرایا جائے۔ مگر میرے خیال سے اب یہ تعویز اور دم بھی کارگر نہی ہونگے۔ ایک ہی سیاسی تعویز ہے سیاسی میدان میں الیکشن کے زریعے اتریں اور اپنی اپنی پر فارمس دیکھائیں اور جیت کر سلی ہوئی شیروانیاں پہن لیں۔ اب موجودہ حالات میں سیاسی پوزیشن کو دیکھتے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ بقول الیکشن کمیشن اور کچھ سیاسی جماعتوں کے نیی مردم شماری میں ووٹر کی تعداد کم ہوئی ہے بڑھی نہی۔ پھر بھی مان لیتے ہیں کہ کم نہی ہوئی پانچ فیصد بڑھی ہوگی تو وہ پچاس جماعتوں میں تقسیم ہوکر کیا فرق ڈالے گی۔

میں کوئی تجزیہ کار تو نہی ہوں مگر پاکستان میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والا ایک عام ووٹر ہوں میرے جیسے لاکھوں ووٹر ہیں جو اپنے تجزیے لگاتے ہیں۔ میرا تجزیہ اسوقت یہ ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی حیثیت برقرار رکھے گی کیونکہ ایم کیو ایم والا خطرہ اب سند میں ختم ہو گیا ہے محاجر ووٹر تقسیم ہو گیا ہے آپس میں بھی اور کچھ سنجیدہ محاجر ووٹ بڑی پارٹیوں میں آئے گا۔ پنجاب میں پیلز پارٹی سیٹیں تو نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی مگر بلاول ہر حلقے میں اپنے کچھ ناراض ووٹر کو واپس ضرور لائے گا جو پی ٹی آئی میں چلا گیا تھا اس سے پی پی پی کو فائیدہ تو نہی ہوگا مگر پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا۔ خیبر پختونخواہ میں میں بھی پی پی کی یہی صورتحال نظر آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا نقصان کرے گی۔ عوامی نشنل پارٹی بھی اپنا ووٹر واپس لائے گی کچھ حد تک۔ 2013 سے بہتر ہو جائے گی۔ نون کے پی کے میں پہلے سے مزید بہتر ہو جائے گی جس طرح امیر مقام محنت کر رہا ہے متحدہ مجلس عمل بحال ہو گئی تو تحریک انصاف کو بہت نقصان ہوگا کے پی کے میں اور کسی پارٹی کو بھی حکومت بنانا بہت مشکل ہوگا نون وہان گنگز میکر ہوگی۔ بلوچستان میں مجلس عمل نون لیگ اور نیشنلسٹ پارٹیوں کے تین بڑے دھڑے ہونگے صوبائی اسمبلی میں۔ اب آتے ہیں پنجاب میں جس پر سارا دار و مدار ہے مرکزی حکومت کا پنجاب ہی کنگز میکر ہوتا ہے اور ہوگا بھی۔ پنجاب میں نون لیگ کو بقول اینکرز اور گرو تجزیہ کاروں کے بہت مشکلات ہیں۔ نوازشریف نااہل ہوگیا بدنام ہو گیا اسکا ووٹ ٹوٹ گیا۔ ختم نبوت کے نام پر بڑی دھول اچھالی ہوئی ہے عدلیہ اور فوج پر تنقید کرپشن کرنے کا پروپیگنڈہ بھی کیا جارہا ہے جن کے کوئی ثبوت ابھی تک نہی ملے۔ نون لیگ کی چونکہ حکومت ہے اسلیے انہوں نے ابھی تک اس پروپگنڈہ کا ووٹر کی زبان میں جواب نہیں دیا۔ جب نگران حکومت بن جائے گی تو نون لیگ والے عوامی زبان مین اس سارے پروپگنڈہ کا توڑ آسانی سے کر لیں گے اگرلبیک یا رسول اللہ کے پلیٹفارم سے کچھ بریلوی ووٹ ٹوٹ بھی جاتا ہے تو لوڈشیڈنگ اور دشتگردی کے خاتمے سی پیک ترقیاتی کارکردگی کا ووٹ بڑھے گا بھی جو اس گیپ کو ڈبل فل کرے گا اور یہ جو عدالتوں میں ہو رہا ہے اسکا بھی عوامی زبان میں جب گلی محلوں گاوں گوٹھوں میں موازنہ کیا جائے گا تو ہمدردی کا ووٹ بھی ملے گا 2008 میں اسکا مطاہرہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ اور یہ جو ترقیاتی کارکردگی دوسرے صوبوں میں ریفلیکٹ کرے گی تو مخالفین کو ووٹوں کانقصان ضرورپہنچائے گی۔ پہلے ہی مخالفین کے ووٹ اور ان کے ووٹوں کا آدھے سے زیادہ فرق ہے۔ 190 اور 35/35 سیٹوں کا فرق کس بناد پر گرو تجزیہ کار اور انکرز برابر کرائیں گے۔ ایک اور سب سے اہم بات نون لیگ کے پاس نچلی سطح پر بہت مضبوط پارٹی سٹرکچر ہے صرف نارے لگانے والا نہی کام کرنے والا ووٹر کو پولنگ سٹیشن تک لانے والا۔ منظم بلدیاتی ادارے سارے ان کے اپنے ہین پنجاب میں۔ المختصر مجھے تو پاکستان میں 2018 میں نون لیگ کی مضبوط حکومت بنتی نظر آ رہی ہے آج کے دن تک کے حالات کیمطابق۔ گیم آن ہے۔ اور ابھی نون کے پاس کارڈ کافی بچے ہوئے ہیں۔

اللہ پاک ہمارے پاکستان کو اور جمہوریت کو حادثات سے محفوظ رکھے آمیں۔