1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. جاوید چوہدری/
  4. مشکل ترین الیکشن

مشکل ترین الیکشن

ہم بائیکاٹ کی طرف آتے ہیں اگر۔

میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتے ہیںتو کیا ہوگا؟ بائیکاٹ کے دو نتائج نکل سکتے ہیں، اول، الیکشن شروع میں دو تین ماہ کے لیے مؤخر ہو جائیں اور اگر دونوں پارٹیاں بائیکاٹ کے بعد احتجاج شروع کر دیتی ہیں تو ٹیکنو کریٹس کی حکومت بن جائے، یہ حکومت اڑھائی سال چلے اور ملک میں احتساب کا خوفناک عمل شروع ہو جائے۔

دوم، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے بائیکاٹ کے باوجود الیکشن وقت پر ہو جائیں، ملک کی دونوں پارٹیوں کے "الیکٹ ایبلز" بغاوت کر دیں، یہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے رابطہ کریں، عدالت آئینی گنجائش نکالے،یہ لوگ اپنے ٹکٹ واپس کریں اور "جیپ" کا انتخابی نشان لے کر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ لیں یوں دو پارٹیاں سامنے آ جائیں، بلا اور جیپ، اگر یہ امکان وقوع پذیر ہو گیا تو چوہدری نثار وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار بن کر سامنے آ جائیں گے۔

یہ "جیپ" کے کامیاب امیدواروں کو اکٹھا کر لیں گے، اسٹیبلشمنٹ ان کے لیے "سافٹ کارنر" رکھتی ہے، یہ انھیں عمران خان پر فوقیت دے گی لہٰذا یہ وزیراعظم بن جائیں گے اور عمران خان اپوزیشن لیڈر اور اگر عمران خان نے زیادہ نشستیں حاصل کر لیں تو یہ وزیراعظم اور چوہدری نثار اپوزیشن لیڈر ہو جائیں گے۔

الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے مریم نواز دو نئے لیڈر سامنے آ جائیں گے، ملک میں نیا سیاسی کھیل شروع ہو جائے گا، پارلیمنٹ کے اندر اوئے اوئے اور باہر جانے نہ دو کے نعرے لگنے لگیں گے، آصف علی زرداری بائیکاٹ کے ایشو پر میاں نواز شریف سے ملاقات کی تردید کر چکے ہیں، یہ تردید درست ہے، دونوں میں واقعی ملاقات نہیں ہوئی تاہم یہ بھی غلط نہیں دونوں کے درمیان رابطہ استوار ہو چکا ہے اور یہ دونوں بائیکاٹ کے لیے سمجھوتہ طے کر رہے ہیں۔

اگر یہ سمجھوتہ طے پا گیا تو یہ دونوں بائیکاٹ کر دیں گے، اب سوال یہ ہے یہ بائیکاٹ کیوں کریں گے؟ اس کی بڑی وجہ مستقبل کا سیاسی نقشہ ہے، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اپنا مستقبل صاف نظر آ رہا ہے، پیپلز پارٹی کا خیال تھا پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب میں انھیں گنجائش مل جائے گی لیکن یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا چنانچہ یہ محسوس کرتے ہیں پنجاب تو دور سندھ بھی اب ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

سندھ میں پی ایس پی، ایم کیو ایم پاکستان، جی ڈی اے اور آزاد امیدوار مل کر حکومت بناتے دکھائی دے رہے ہیں، تحریک انصاف اپوزیشن میں بیٹھے گی اور پیپلز پارٹی پانچ سال مقدمے بھگتے گی، پاکستان مسلم لیگ ن کا خیال تھا ملک میں جتنی بھی "سیاسی انجینئرنگ" ہو جائے پنجاب ان کے ہاتھ سے نہیں نکل سکتا لیکن یہ لوگ اب اس حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب بھی اب ان کا نہیں رہا چنانچہ وقت ایک بار پھر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو ایک میز پر لے آیا ہے اور وہ آصف علی زرداری جو کبھی میاں نواز شریف کی ٹیلی فون کال سننے کے لیے تیار نہیں تھے وہ اب ان کا فون بھی سن رہے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بھی تیار ہیں بس اعلان ہونا باقی ہے۔

ہم اب الیکشن بائیکاٹ کے "میجر وکٹم" کی طرف آتے ہیں، ہمیں ماننا ہوگا اگر ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں بائیکاٹ کر دیتی ہیں تو عمران خان اس فیصلے کے سب سے بڑے وکٹم ہوں گے، یہ وزیراعظم نہیں بن سکیں گے، کیوں؟ اس کی بھی دو وجوہات ہیں، ایک، الیکشن اگر دو تین سال کے لیے مؤخر ہو جاتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف تتر بتر ہو جائے گی۔

الیکٹ ایبلز تحریک انصاف سے "اصل پارٹی" کی طرف چلے جائیں گے، یہ چوہدری نثار کے کیمپ میں آ جائیں گے اور اگر الیکشن بائیکاٹ کے باوجود ہو جاتے ہیں تو چوہدری نثار کا جیپ گروپ سامنے آ جائے گا اور یہ عمران خان کو قبول نہیں کرے گا چنانچہ پاکستان تحریک انصاف اپنا امیدوار بدلنے پر مجبور ہو جائے گی اور یوں شاہ محمود قریشی سامنے آ جائیںگے، پارلیمنٹ چوہدری نثار اور شاہ محمود قریشی چلائیں گے اور ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کے سربراہ سسٹم سے باہر بیٹھنے پر مجبور ہو جائیں گے، یہ تمام امکانات موجود ہیں۔

یہ اگلے دو ہفتوں میں کھل کر سامنے بھی آ جائیں گے تاہم یہ طے ہے یہ الیکشن پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں کو نقصان پہنچائیں گے، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں کا "پارلیمنٹری کیریئر" ختم ہو جائے گا اور یہ پارٹیاں اگر 2018ء کے بعد چلتی ہیں تو پھر بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف دونوں کو پارٹی کی عنان سنبھالنا ہوگی، انھیں آگے آنا ہوگا ورنہ ان کے ساتھ پارٹیاں بھی فارغ ہو جائیں گی۔

کل کیا ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں جانتا لیکن حالات آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، یہ درست ہے میاں نواز شریف نے پانچ برسوں میں بہت کام کیا، بجلی سے لے کر سی پیک تک ملک میں واقعی کام ہوا اور ہمیں کھلے دل کے ساتھ اس کا اعتراف کرنا چاہیے، آپ پنجاب سے میاں شہباز شریف کے دس سال نکال دیں تو پنجاب اور سندھ میں کوئی فرق نہیں رہتا، شہباز شریف نے پورے صوبے میں سڑکیں بنوائیں، بڑے شہروں کی حالت بدل دی۔

بجلی بھی بنائی اور لولے لنگڑے ہی سہی لیکن نئے ادارے بھی بنائے لہٰذا آج پنجاب تمام شعبوں میں باقی تین صوبوں سے آگے ہے، ہم ترجیحات بر بحث کر سکتے ہیں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں میاں برادران کو تعلیم، صحت، پانی اور پولیس پر بھی اتنی ہی توجہ دینی چاہیے تھی جتنی توجہ یہ میٹرو، انڈرپاسز اور سڑکوں پر دیتے رہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے ان لوگوں نے سرے سے کچھ نہیں کیا، مجھے خطرہ ہے مستقبل کی حکومتیں یہ بھی نہیں کر سکیں گی تاہم میاں نواز شریف پرفارمنس کے باوجود مار کھا گئے، کیوں؟

وجہ میاں نواز شریف کی سیاسی غلطیاں ہیں، یہ 2013ء کے عوامی مینڈیٹ کو فوج کے خلاف ریفرنڈم سمجھ بیٹھے تھے، ان کا خیال تھا عوام نے انھیں جنرل پرویز مشرف کو سزا دینے کے لیے وزیراعظم ہاؤس بھجوایا اور یہ وہ غلط فہمی تھی جس نے پرفارمنس کے باوجود پوری پارٹی کا بھرکس نکال دیا، میاں شہباز شریف واحد شخص تھے جو شروع دن سے میاں نواز شریف کو سمجھا رہے ہیں ہمیں فوج سے ٹکرانے کے بجائے صرف اور صرف پرفارمنس پر توجہ دینی چاہیے۔

ہمیں اگر پندرہ سال مل جائیں تو لوگ ہمیں ہٹانے کے بجائے سیلوٹ پر مجبور ہو جائیں گے لیکن نواز شریف نہیں مانے، میاں نواز شریف نے نومبر2013ء میں جب جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی شروع کی تو میاں شہباز شریف انھیں رائیونڈ میں اکیلے ملے، ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور کہا "لوگوں نے ہمیں پنجاب میں 2008ء سے 2013ء تک پرفارمنس پر ووٹ دیے ہیں، آپ صرف پرفارم کریں۔

جنرل پرویز مشرف کو نہ چھیڑیں، اسے دوبئی، لندن اور نیویارک میں پھرنے دیں، ہم اور پارٹی دونوں ناقابل تسخیر ہو جائیں گے ورنہ جنرل مشرف کا مقدمہ ہمیں لے کر بیٹھ جائے گا" میاں شہباز شریف نے انھیں یہ تک کہا تھا "ہمارے والد بھی اگر آج زندہ ہوتے تو وہ بھی آپ کو یہی مشورہ دیتے، آپ میرے ساتھ آئیں، ہم والد کی قبر پر بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں" لیکن میاں نواز شریف نہ مانے اور یوں میاں نواز شریف جنرل مشرف کا بھی کچھ نہ بگاڑ سکے اور یہ اپنی پارٹی اور حکومت بھی تباہ کر بیٹھے۔

پاکستان مسلم لیگ ن چار اشخاص کو اس صورتحال کا ذمے دار سمجھتی ہے، پرویز رشید، طارق فاطمی، عرفان صدیقی اور مریم نواز، یہ چاروں لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں، پرویز رشید 1999ء کے سانحوں کی کی وجہ سے فوج کے خلاف ہیں، طارق فاطمی نے پوری زندگی فارن سروس میں گزاری، یہ سمجھتے ہیں فارن پالیسی میں جب تک اسٹیبلشمنٹ کا رول موجود ہے حکومت خود مختار نہیں ہو سکتی۔

عرفان صدیقی ایک وفادار ملازم ہیں، یہ ہاں میں ناں ملانے کو گناہ سمجھتے ہیں جب کہ مریم نواز اپنے والد کی مریدنی ہیں، یہ والد کو خود سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں چنانچہ یہ ہر اس شخص کے خلاف ہیں جس نے ایک بار بھی میاں نواز شریف کو تکلیف پہنچائی، یہ چاروں لوگ پانچ سال میاں نواز شریف کے قریب رہے چنانچہ تلخی میں تلخی ملتی رہی اور زہر بنتا چلا گیا، میاں نواز شریف کے قریب اگر شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف یا شہباز شریف جیسا کوئی ایک شخص ہوتا اور یہ اس کی بات سن اور مان لیتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔

ہمیں یہ حقیقت ماننی ہو گی جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ یہ تینوں جرنیل جمہوریت پسند تھے، 2008ء سے 2013ء کے درمیان میاں شہباز شریف کی حکومت دوبار خاتمے کے قریب پہنچی اور دونوں مرتبہ جنرل کیانی نے انھیں بچایا، آصف علی زرداری فوج کو بار بار "ٹیک اوور" کا موقع دیتے رہے لیکن جنرل کیانی نے موقعے کا فائدہ نہیں اٹھایا، یہ مواقع میاں نواز شریف نے جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کو بھی دیے لیکن یہ بھی لاتعلق رہے۔

ہماری جمہوریت کو مستقبل میں شاید ہی اتنے جمہوری آرمی چیف ملیں گے لیکن میاں نواز شریف کی ضد اور ان کے ساتھیوں کی کوتاہ فہمی نے یہ مواقع ضایع کر دیے، معاملات "پوائنٹ آف نو ریٹرن" پر پہنچ گئے اور آج فوج اور نواز شریف دونوں الگ الگ قطب پر کھڑے ہیں اور عوام تشویش میں کبھی دائیں دیکھتے ہیں اور کبھی بائیں۔

ملک کے موجودہ حالات کے کیا نتائج نکلتے ہیں ہم نہیں جانتے لیکن یہ طے ہے یہ الیکشن ملک کے مشکل ترین الیکشن ہوں گے، یہ میک اور بریک کریں گے، الیکشنز میں بے شمار بت ٹوٹ جائیں گے اور بے شمار نئے بت بن جائیں گے، ملک میں ایک نیا صنم کدہ تیار ہو جائے گا۔

جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

جاوید چودھری پاکستان کے مایہ ناز اور معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم اپنی جدت اور معلوماتی ہونے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ جاوید چودھری "زیرو پوائنٹ" کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پروگرام ”کل تک“ کے میزبان بھی ہیں۔ جاوید چوہدری روزنامہ جنگ کے کالم نگار تھے لیکن آج کل وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹیلیویژن سے وابستہ ہیں۔