1. ہوم/
  2. غزل/
  3. رقیہ اکبر چوہدری/
  4. دولت درد کا انبار ہوئے جاتے ہیں

دولت درد کا انبار ہوئے جاتے ہیں

دولت درد کا انبار ہوئے جاتے ہیں
آخرش ہم بھی ثمر بار ہوئے جاتے ہیں

فصل بے برگ ہے یہ زیست تو آنکھیں لے جا
خواب پلکوں پہ گراں بار ہوئے جاتے ہیں

مر گیا وہ بھی کہانی کے شروع ہوتے ہی
ہم بھی افسانے کا ہی کردار ہوئے جاتے ہیں

کس کی آمد کا پتہ باد صبا لائی ہے
دشت و صحرا، گل و گلزار ہوئے جاتے ہیں

ناخداؤں نے اگر ناو ڈبوئی بھی تو کیا
دست و بازو میرے پتوار ہوئے جاتے ہیں

ہم کو سرکار کی سازش کا بتانے والے
خود ہی دربار کا کردار ہوئے جاتے ہیں

کچھ غلط کر دیا کیا! آپ کو رستہ دیکر؟
آپ تو راہ کی دیوار ہوئے جاتے ہیں

کل تلک جن سے بہت آپ کو رنجش تھی جناب
آج آپ ان کے طرف دار ہوئے جاتے ہیں