1. ہوم/
  2. غزل/
  3. سعدیہ بشیر/
  4. ہم اس نگاہ میں رہے جو خود بہت اداس تھی

ہم اس نگاہ میں رہے جو خود بہت اداس تھی

ہم اس نگاہ میں رہے جو خود بہت اداس تھی
جو ان کہی سی بات تھی وہ بات ہم کو راس تھی

وہ راستوں کی بھیڑ سے بچ بچا کے کھو گیا
اک ہجوم وحشتاں میں لومڑی کی باس تھی

پگھلے تھے سب گلیشیر، مضحمل طیور تھے
کٹ چکے تھے اشک بھی پتلیوں پہ گھاس تھی

وہ کس طرح کے تیر تھے جو خود کمان کھا گئے
ننگ بانٹتی تھی جو وہ کون سی کپاس تھی

فرق نہیں جو کر سکا شعور میں، فتور میں
جسے تلاش فقر تھی، خبر اسی کے پاس تھی

جنوں قرار پا گیا تبھی تو گہن لگ گیا
حواس میں تھی جب تلک میں خود بھی بے حواس تھی