1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اسد/
  4. میرا ملک اور ریاستِ مدینہ

میرا ملک اور ریاستِ مدینہ

اس کائنات میں ایک واضح اصول ہے کہ ہر عمل کا ردِعمل ہوتا ہے لیکن عمل سے پہلے علم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ علم اورعمل لازم و ملزوم ہیں اور انکا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ وہ علم جو نیت نہ بن سکے، وہ نیت جو ارادہ نہ بن سکے، وہ ارادہ جو عزم نہ بن سکے، وہ عزم جو قصد نہ بن سکے، وہ قصد جو عمل نہ بن سکے اور وہ عمل جو نتیجہ نہ لا سکے، ایسا علم کسی صورت بھی نفع بخش نہیں ہو سکتا۔
ایک طالب علم جو انجینئر بننے کا خواہشمند ہے اسکے لئے ضروری ہے کہ وہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرے اور اسی طرح ڈاکٹر بننے کے لئے بھی ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ ایسا ممکن نہں کہ ایک انسان انجنئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کی بعد ڈاکٹر بننے کا دعوٰی کرے۔ یہ بالکل بے بنیاد اور نا قابل سماعت بات ہے۔
میرے ملک میں گزشتہ کچھ عرصے سے ایسی ہی فضا قائم ہے۔ یہ دعوٰی توکیا جاتا ہے کہ میرے ملک کو ریاستِ مدینہ بنایا جائے گا۔ اس کائنات کی معزز ترین ہستی حضرت محمدﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں لیکن افسوس کہ میرا ملک ریاستِ مدینہ میں رائج قانون اور بنیادی اصولوں سے نا آشنا ہے۔
ریاستِ مدینہ کا سپریم لاء اللہ کا قرآن اور محمدﷺ کا فرمان تھا۔ میر ے ملک کا سپریم لاء تو قرآن و سنت ہے لیکن افسوس کہ اس سپریم لاء کی اہمیت آئین میں لکھے چند حروف سے زیادہ نہیں۔
میرے ملک میں گستاخِ رسولؐ کو اقبالِ جرم کے بعد بھی اسکی سزا سے بری کر دیا جاتا ہے جبکہ ریاستِ مدینہ میں اگر کوئی نبیﷺ کے سامنے اپنی آواز بھی بلند کرتا تھا تو آسمان سے وحی آجاتی تھی، فاروقِ اعظمؓ تلوار بدست ہو جاتے تھے۔
میر ے ملک کی ریاست کو عہد شکنی کا پورا حق حاصل ہے جو اپنے کئے ہوئے عہد سے کسی بھی وقت پِھر سکتی ہے۔ مگر ریاستِ مدینہ میں میرے نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ "روزِ قیامت ہر عہد شکن کی پشت پر ایک جھنڈا ہو گا جو اسکی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا، سن لو! سربراہِ مملکت سے بڑھ کر کسی عہد شکن کی عہد شکنی نہیں۔ "
میر ے ملک کی تعلیمی درسگاہوں کے اساتذہ کو ہتھ کڑی لگ جائے تو کہرام مچ جاتا ہے اور اساتذہ کے ادب و احترام کا لحاظ رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے اور دوسری جانب ایک ایسا انسان جس نے ساری زندگی قرآن کی تعلیم دی ہو، اسکی جیل میں شہادت ہو جاتی ہے اور نام نہاد مؤدب لوگوں کو چُپ لگ جاتی ہے۔ کیا قرآن کی تعلیم دینے والا استاد نہیں ہوتا؟ ریاستِ مدینہ میں تو میرے نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ " تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ "
میرے ملک میں مسافروں کو انکے معصوم بچوں کے سامنے محافظوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے اور پھر انصاف کی بجائے ان کو دہشتگرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن ریاستِ مدینہ میں انصاف کا معیار یہ تھا کہ زبانِ وحی نے ارشاد فرمایا تھا کہ "جنّتی عورتوں کی سردار، حضرت محمد ﷺ کے جگر کا ٹکڑا حضرت فاطمہؓ بھی چوری کرے تو اسکا بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ "
میرے ملک میں وسائل کی کمی کے نام پر اولاد کی روک تھام کے لئے باقائدہ طور پر مہم چلائی جاتی ہے اور (بچے دو ہی اچھے، کم بچے خوشحال گھرانہ) جیسے، نعرے لگائے جاتے ہیں جبکہ اللہ ربُ العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ "مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، انکو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ " شاید میرے ملک کے سربراہان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اللہ سے بڑھ کر کوئی کارساز نہں۔
میرے ملک میں ایک غیر مسلم کی طرف سے شراب کے خلاف پیش کردہ بل کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور طرح طرح کی بے بنیاد باتیں کی جاتی ہیں۔ ریاستِ مدینہ میں جب جبرائیل امین اللہ کی طرف سے شراب کے حرام ہو جانے کی وحی لے کر آئے تھے تو لوگوں نے ساری کی ساری شراب بہا دی تھی اور مدینے کی گلیوں میں سیلاب کا منظر نظر آرہا تھا۔
میرے ملک میں نکاح کی سنت کو بے حد مشکل بنا دیا گیا ہے۔ لا تعداد غریب اور مسکین گھرانے اس سنت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ جہیز کے خلاف کوئی بل نہیں پیش کیا جاتا بلکہ ۱۸ (18) سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی کے بل پیش کئے جاتے ہیں۔ ریاستِ مدینہ میں ایسا کوئی قانون نہیں تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی جب نبیﷺ سے شادی ہوئی تو انکی عمر صرف ۹ (9) سال تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ میرے ملک کی ریاست نے اللہ اور اسکے رسولﷺ کے احکامات کی مخالفت کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور یقینا ان حالات کو دیکھ کر ریاستِ مدینہ کے دعوے بے بنااد اور کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ اگر دعوٰی ریاستِ مدینہ کا کیا جائے تو اسکے لئے ضروری ہے کہ موازنہ بھی ریاستِ مدینہ سے کیا جائے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب ریاستِ مدینہ کے تمام قانون و ضوابط کا علم ہو۔
"اس چیز کے پچھے نہ پڑو جس کا تمھیں علم نہ ہو، " (القرآن)
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ میرے ملک کو ہر قسم کے شر سے محفوظ فرمائے اور اسے حقیقی طور پر ریاستِ مدینہ بنانے کی توفقی عطا فرمائے۔ آمین!
چمن میں تلخ نوائی میری گوارہ کر
زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی