1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. نوی نکور دھمکی

نوی نکور دھمکی

کہتے ہیں ایک شکست خوردہ بادشاہ، پراگندہ حال جان بچا کر ایک غار میں چند سپاہیوں کے ساتھ پناہ گزین تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک چیونٹی غار کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تھوڑا اوپر جاتی ہے، نیچے گر جاتی ہے۔ پھر اوپر جاتی ہے پھر گرتی ہے کوئی دسویں بار میں اوپر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ بادشاہ سلامت کو دیکھ کر خود پر بڑا غصہ آتا ہے وہ فوراً اٹھتے ہیں اور جا کر اپنی سلطنت واپس حاصل کر لیتے ہیں۔ لہٰذا تم بھی ہمت نہ ہارا کرو، وغیرہ وغیرہ۔

یہ کہانی شاید پرانے زمانے کے کسی محرک مقرر motivational speaker نے گھڑی ہو گی۔ اور اس وقت کے بہت سے سادہ لوگوں کو سنا کر ان کو کام کوم پر بھی لگا دیا ہو گا۔ ہمیں بھی کسی بندے کو جوش دلانا تھا سوچا یہی کہانی سناتے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ کسی شریف آدمی سے کیا کہیں کہ تم چیونٹی کی طرح بہادر ہو ڈٹے رہو، بچارا کیا سوچے گا کہ اچھے بھلے انسان کو بیٹھے بٹھائے چیونٹی بنا دیا۔ پھر غور کیا تو کہانی میں اور بھی کئی مسائل تھے۔

کسی پہاڑ کی غار میں کس بھلے مانس نے اتنا چراغاں کر دیا تھا کہ غار کی پتھریلی دیوار پر چیونٹی بھی چڑھتی گرتی صاف دکھائی دے رہی تھی، یا بادشاہ سلامت ساری زندگی پالک گوشت ہی کھاتے رہے کہ ان کی نگاہیں اس قدر تیز رہی ہیں۔ اور ویسے بھی آج تک ہم نے ایسی کم گرفت والی نالائق چیونٹی نہیں دیکھی جو دسویں کاوش میں دیوار پر چڑھ سکے۔

پھر سب سے بڑی بات کہ وہاں سے نکل کر دیار غیر میں پندرہ بیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج بھی بھرتی کر لی، ان کے لیے ساز حیات، ذرائع آمدورفت اور سامان حرب بھی مہیا کر لیا اس حالت میں کہ ملک اور خزانے پر دشمن پہلے سے قابض ہو چکا ہے۔ شاید اس وقت بادشاہوں کے اکاؤنٹ منجمند کرنا بد تہذیبی شمار ہوتا ہو اور بادشاہ سلامت نے بھاگتے ہوئے بھی اے ٹی ایم کارڈ سلوکے کی جیب میں ڈال کر رکھا ہو۔ کہانی بن کر ہی نہیں دے رہی تھی۔

لیکن جو بھی ہو جی ہم نے ایک بیکار بندے کو جوش تو دلانا تھا کہ وہ محنت پر آمادہ ہو۔ سو کہانی میں تھوڑی سی ترمیم کی۔ ایک بادشاہ شکست کھا کر جان بچانے کی غرض سے اپنے چند ساتھیوں سمیت جنگل میں روپوش ہو گیا۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھا سستا رہا تھا کہ ایک چیتے کا بچہ کہیں سے آ کر درخت پر چڑھنے لگا تھوڑا اوپر جاتا تو نیچے گر جاتا۔ پھر اوپر جاتا پھر گر جاتا آخر دسویں بار میں درخت پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ لہٰذا تم بھی چیتے بنو اور ہمت نہ چھوڑو۔ ایک دن تم بھی کامیاب ہو جاؤ گے۔

کہانی تو زبردست بن گئی لیکن خیال آیا کہ اگر اس شریف آدمی نے پوچھ لیا چیتے کا بچہ درخت پر چڑھ کر کرے گا کیا؟ درخت پر بیٹھی فاختہ پکڑے گا یا درخت سے آڑو توڑ کر کھائے گا، تو کیا جواب ہو گا؟ تب ہم نے کہانی میں اضافہ کیا، کہ بادشاہ اس چیتے کی کوشش سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے اپنے ساتھی سے کہا اگر یہ چیتے کا بچہ کامیاب ہو سکتا ہے تو ہم تو انسان ہیں اشرف المخلوقات ہم کیوں نہیں اپنی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لے سکتے؟ وغیرہ وغیرہ۔

بادشاہ کا ساتھی کوئی سیانا بندہ تھا کہنے لگا بادشاہ سلامت چپ کر کے بیٹھیں وہ چیتے کا بچہ تو جبلی طور پر درخت پر چڑھنا جانتا ہے پھر بھی نالائق جا کر دسویں بار چڑھ پایا۔ آپ جب سالم بادشاہ تھے پورا ملک اور خزانہ آپ کی ملکیت تھا تب شکست کھا گئے اب یہاں جنگل میں کون سا ساتواں بحری بیڑہ آپ کی مدد کے آنے والا ہے؟ بادشاہ کے ساتھی کی بات میں وزن ہے مگر سوال یہ ہے اب ہم کیا کریں؟

کبھی جی میں آئے کہ اسے جا کے سیدھا سیدھا بول دیتے ہیں کہ بھائی چغد نہ بنو کچھ ہمت کرو۔ اگر ایک دو بار ناکامی ہو گئی تو کیا ہوا پھر سے کوشش کر لو اور ہاں اس بار کوئی بیوقوفی اور ہڈ حرامی نہ کرنا امید ہے کامیاب ہو جاؤ گے۔ لیکن وہ کیا ہے کہ اس طرح اس پر ہمارا رعب شعب کیسے پڑے گا؟ ہمیں وہ زیادہ پڑھا لکھا اور پروفیسر ٹائپ بندہ کیسے سمجھے گا؟ سوچتے سوچتے پھر ہمارے ہاتھ لگا ایک سنہری نسخہ۔ نسخہ جو آج کل ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔

نسخہ جس کے ناکام ہونے کے امکانات ہمارے ملک میں صفر فی صد ہیں، انگریز اور انگریزی کتاب کا رعب، بس جی پھر کیا تھا، ہم نے جو پچھلے بیس سال میں واحد انگریزی کتاب تھوڑی سی پڑھی تھی بمشقت تمام اس کا اور اس کے مصنف کا نام یاد کیا اور پہنچ گئے جوش جگانے۔ مناسب وقت دیکھ کر ایسا ہتھوڑا مارا کہ آج تک بیچارا پنجوں کے بل ہو گا۔ ہم نے کہا بھائی وہ دنیا کی مشہور زمانہ کتاب ہے نا جس کی تہتر کروڑ کاپیاں صرف دو دن میں ہی بک گئیں تھیں۔ وہ کیا بھلا سا نام ہے۔

The Lean Startup

اس کا مصنف Eric Ries خود اعتراف کرتا ہے کہ اس نے پہلے کتنے ہی کام کیے جو بری طرح ناکام رہے پھر آخر ایک کام میں بے حد کامیابی ملی اور آج وہ ارب پتی ہے۔ لہٰذا تم بھی دل چھوٹا نہ کرو اور ہمت پکڑو، اس نے تو فل ہمت پکڑی ہے اب وہ روہی سے بٹیرے پکڑتا ہے اور پشاور والوں کو فروخت کرتا ہے۔ ایک دن کہہ رہا تھا سر پشاور والے کہتے ہیں بٹیروں کے بدلے پیسوں کی بجائے چرس لے لیا کرو منافع ڈبل ہو جائے گا۔

تو جناب آپ کہیں، کہ آپ نے بھی ہمت پکڑنا ہے کہ سنائیں کوئی کہانی۔