1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. کاغذی اخروٹ کی رنگیں داستاں

کاغذی اخروٹ کی رنگیں داستاں

جنوبی پنجاب اور سندھ میں آم بکثرت پیدا ہوتا ہے۔ سندھڑی، لنگڑا، دوسہری، چونسا، انور رٹول اور فجری۔ آم کی پانچ سات سو اقسام جو پاکستان میں پائی جاتی ہیں ان میں سے یہ چند اقسام ہی تجارتی پیمانے پر پیدا کی جاتی ہیں۔ کیوں کہ سالہا سال کے تجربہ سے لوگوں نے سیکھ لیا ہے کہ ان کا ذائقہ اور پیداواری استعداد ایسی ہے کہ ان کا اگانا معاشی طور پر سب سے زیادہ مفید ہے۔

اب شمال کی طرف چلتے ہیں۔ اخروٹ بیچنے والے ایک صاحب سے پوچھا یہ کونسی قسم کی اخروٹ ہیں۔ کہتا کیا مطلب اخروٹ ہیں۔ عرض کیا کہ آپ کے کچھ اخروٹ ایسے ہیں جن میں سے سفید گری نکل رہی ہے اور کچھ ایسے ہیں جن میں سے براؤن اور کچھ میں سے سرخی مائل۔۔ پھر کسی کا ذائقہ ہلکی مٹھاس لیے ہے اور کچھ کا ذائقہ بالکل پھیکا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہمیں ایک ہی قسم کے اخروٹ زیادہ مقدار میں مل جائیں۔ چاہے کوئی بھی ہوں۔ کہتا چین کے اخروٹ لے لیں وہ ایک سے ہیں اور ذائقہ بھی ایک سا ہے ہمارے والے بس ایسے ہی ہیں مکس۔ تین چار دکانوں سے استفسار کیا جواب وہی تھا۔

مقامی لوگوں سے پوچھا کہتے یہ جو اخروٹ کے تھوڑے بہت درخت ہیں یہ بھی کووں کی مہربانی سے ہیں۔ لوگ تو یہ لگاتے ہی نہیں نہ لگانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس سے فصل کم ہوتی ہے۔ جان کر حیرت ہوئی حالانکہ مشاہدہ یہ بتارہا تھا کہ ڈھلوانوں پر بہت سی ایسی جگہیں ویران پڑی تھیں کہ جہاں فصل نہیں ہوسکتی مگر درخت با آسانی لگائے جاسکتے ہیں۔

ہمارے علم کے مطابق وادی کاغان اور وادی لیپا کے کچھ علاقوں میں بہت عمدہ معیار کا اخروٹ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن کم مقدار میں۔ اس کے علاوہ چین سے جو اخروٹ آتا ہے وہ بھی زبردست معیار کا ہوتا ہے۔ کتنا آسان ہے کہ محکمہ زراعت ان اچھی اقسام میں سے مختلف علاقوں کے لحاظ اقسام کا انتخاب کرے اور ان کی کثیر مقدار میں شجر کاری کردی جائے۔ بس چند سال کی توجہ اور اس کے بعد دوسوسال پھل کھائیں۔

اخروٹ کے ساتھ جڑی معیشت کا اگر جائزہ لیں تو پاکستانی اخروٹ بازار میں چار سو روپے کلو جب کہ چینی اخروٹ چھ سو روپے فی کلوگرام فروخت ہورہے ہیں۔ لیکن ان کی گری جس کو مغز اخروٹ کہا جاتا ہے کا تھوک کا نرخ دوہزار سے چوبیس سو روپے فی کلوگرام ہے۔ پاکستانی اخروٹ میں سے تین کلو سے ایک کلو مغز نکلے گا جبکہ چین کے اخروٹ سے قریب دو سوا دو میں سے ایک کلو۔ یعنی کسی بھی صورت مغز اخروٹ چودہ سو روپے فی کلو سے زیادہ نہیں پڑنا چاہیے۔ چھوٹے پیمانے پر مغز نکالنے کے نٹ کریکر یو ٹیوب سے سیکھ کر چند ہزار روپے میں باآسانی بنایا جاسکتا ہے۔

حاصل گفتگو یہ کہ اگر ذرا سی حکمت سے کام لیں اور اچھی نسل کے اخروٹ کا شجر کاری عام کردیں۔ تو چند سال میں نہ صرف اس کی درآمد پر خرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے بلکہ شمال کے ہزاروں لوگوں کو کہ جہاں لوگوں کا معیار زندگی بہت ناگفتہ بہ ہے برسرِ روز کرکے ان کی زندگی میں خوشحالی لائی جاسکتی ہے۔

آخری بات اخروٹ غذائی اعتبار سے بہت کمال چیز ہے اس میں اومیگا تھری کی خاصی مقدار ہوتی ہے جو دل کی صحت کے لیے ناگزیر ہے۔ ہر شخص کو ناشتہ میں کم از کم دو اخروٹ کی گریوں کا استعمال معمول بنالینا چاہیے۔