1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عارف ہاشمی/
  4. بغداد سے کراچی تک

بغداد سے کراچی تک

بہت معذرت کے ساتھ قلم کا سہارا لینا پڑا اس لیے کہ نہ تو المیہ چھوٹا ہے اور نہ ہی اس پر ہماری بے حسی۔

تقریباً میٹرک کے زمانے میں ہم نے نسیم حجازی اور اسلم راہی کے تاریخی اور "رومانی" ناول پڑھنا شروع کیے۔۔ آپ میں بہت سے لوگوں نے شاید "آخری چٹان" نامی ڈرامہ دیکھا ہوتا مسلمانوں کی دم توڑنی خلافت اور تاتاریوں کی وحشت ناک فتوحات 13ویں صدی کا ایک المناک باب تھا۔ دجلہ کا پانی پہلے سرخ اور پھر کالا ہوگیا، سرخ تو پورے بغداد کی آبادی کے خون سے اور کالا جب ہلاکو خان نے پورے بغداد کے علمی خزانے کو دریا برد کردیا۔

اوپر کی تمہید میں جانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بغداد اس تباہی سے چند عشرے پہلے جو حالات تھے مجھے اس میں (خاکم برھن) اس ملک کی اور کراچی کی جھلک محسوس ہوئی۔

واٹس ایپ کے یہ گروپ ٹوئنٹر اور فیس بک مجھے نہ جانے کیوں بغداد کے چوراہوں، بازاروں، قہوہ خانوں اور مجلسوں میں لے جاتے ہیں، بغداد کے چوراہے، بازار، قہوہ خانے اور امرا کی مجالس مناظرے کا محور تھیں، مناظرہ ( علمی بحث سمجھ لیں، کیپیٹل ٹاک سمجھ لیں ) اور ان مناظروں کا محور تھے قصے اور ایرانی کی برتری یا کمتری، یہ مناظرے تھے، شیعہ سنی اور مالکی کی ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی نہ ختم ہونےو الی بحث۔

پورا بغداد مناظروں کی جنگ میں مصروف تھا۔

"پورا پاکستان مناظروں کی جنگ میں مصروف ہے"

اب میں جہاں بغداد لکھوں آپ اپنی مرضی سے کراچی اور پاکستان لگا سکتے ہیں۔

بغداد کی خلافت اور سپاہ نے کاروبار سلطنت کو شاید کاروبار ہی سمجھ لیا تھا۔ اپنے شدید ترین دشمن کی سفارت سے بھی ہر وزیر اور مشیر کا کاسہ لیسی میں مصروف تھا۔ وہ بغداد کو بیچ کر خود کو بچانا چاہتے تھے، جب تاتاری طاقت اور وحشت کی آندھی لے کر بغداد کی طرف نازل ہوئے تو لشکر کے گھوڑوں سے دھندلاتا آسمان بھی انہیں موسم کی تبدیلی لگا، کلیوں، بازاروں میں وہ بحث کرتے کہ جہاد ضروری ہے یا کل ہونے والے مناظرے میں شرکت۔

صاحبو مجھے بغداد کے ان مناظروں، چوراہوں پر کھڑے بحث کرتے عالموں اور مجموں اور واٹس ایپ، ٹوئٹر اور فیس بک کچھ ایک جیسے لگنے لگے ہیں، میں علمی بحث کا مخالف نہیں لیکن صاحبو یہ کڑا وقت ہے۔

اس وقت بھی عرب، یزید، ایرانی، شیعہ اور سنی اپنے مسلک کو صحیح ثابت کرنے کے لیے پوری پوری تیاری کرتے، حکمران برا ہے یا اچھا، خلیفہ بدکردار ہے یا رحم دل، بغداد کی موجودہ صورت حال کا کون ذمہ داری لے گا صبح بحث ختم ہووتے ہی ہارنے والا رات کے رستے زخموں کے ساتھ اپنے حواریوں کے ساتھ گھر چلا جاتا اور جیتنے والے رات گئے قہو خانوں میں جیت کا جشن مناتے اور اگلے مناظروں کا موضوع سوچتے۔

کبھی کبھی کوئی دیوانہ پاس سے گزرتا اور صدا لگاتا، مجھے بھی شاید اس کی آواز آرہی ہے ٹھہریں آپ کو سناتا ہوں۔

"ارے مسلمانوں مناظروں کا وقت تمام ہوا عمل کا وقت آن پہنچنا، تاتاری تمہارے گلے تک آپہنچے، اٹھو یاد رکھو میدان جنگ خون کا رنگ سرح ہوگا چاہے یزید ہو یا عرب چاہے شیعہ ہو یا مسلمان تاتاری کھوپڑیوں کے مینار لگاتے، سنی کو شیعہ سے الگ کہیں کرے گا نہ ہی عرب کو یزیز سے۔

لیکن ہنسنے والا کوئی نہیں تھا، آپ کو بھی شاید آواز نہیں آئی ہوگی، زرا دھم ہے اور شور بہت ہے۔

صاحبو، پتہ نہیں مجھے کراچی اور بغداد ایک جیسے لگنے لگے ہیں۔

شاید میرا وہم ہو، برائے مہربانی مجھے اس اذیت سے نجات دلائیں، مجھے یقین دلائیں کے ان مناظروں کا وہ انجام نہیں ہونے والا۔

یاد رکھیں قومیں جب تباہی کا فیصلہ کرتی ہیں تو علمی بحث اور مناظروں سے تقسیم کا ایسا پودا پروان چڑھتا ہے جو زمین کے ہر قطرے کو چوس کر اسے بیابان میں تبدیل کردیتا ہے۔

کراچی صوبہ بنے، سندھ خوشحال ہو، ملک میں فوج حکومت کرے یا کٹھ پتلی اس کا فیصلہ واٹس ایپ یا ٹوئٹر پر نہیں ہونے والا۔ مگر ان علمی مناظروں میں ہم تقسیم کا ایس بیج بو رہے ہیں جس کا قرض ہماری نسلیں صدیوں ادا نہیں کر پائیں گی۔

مایوس ہوکر میں اپنی 80سالہ والدہ کے پاس آبیٹھا (ان کی یادداشت کم ہوگئی) میں نے پوچھا اب کیا کریں۔

انہوں نے خالی نظروں سے مجھے دیکھا پھر بولیں ایک کام کرو سب ٹھیک ہوجائے گا، میں نے پوچھا کیا، کہنے لگیں اپنے موبائل اور کمپیوٹر سے زیادہ میرے پاس آکر بیٹھ جایا کرو، میں پہلے شرمندہ ہوا، پھر حیران اور پھر مسکرادیا۔

مجھے بات سمجھ آگئی تھی

آپ کو آگئی ہے؟

مناظروں سے زیادہ رابطہ گھر کی دہلیز سے لگی ماں، جھلکتے باپ زندگی کی جدوجہد سے لڑتے بھائی سے کریں شاید کراچی کا مسئلہ حل نہ ہو حکومت بھی ایسی رہے مگر کچھ اذیت کم ہوگی، مناظرے کی محفلیں ماند پڑیں گی تو شاید کم ہوتی نسل اور مذہبی منافرت سے تباہی کا سیلاب کچھ دیر کو تھم جائے، شاید ایسا ہو۔

(تحریر کا پسند، نا پسند یا متفق ہونا ضروری نہیں)

یقین جانیں یہ تنقید نہیں تکلیف کا اظہار ہے