1. ہوم
  2. افسانہ
  3. سید محمد زاہد
  4. دانتے کی دوزخ میں ایک اور حلقے کا اضافہ

دانتے کی دوزخ میں ایک اور حلقے کا اضافہ

"ورجل یہاں کیا ہو رہا ہے؟ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ دوزخ کے نو گڑھے ہیں"۔

"ہاں! بیسویں صدی تک نو ہی تھے لیکن اب دوزخ کو بڑا کیا جا رہا ہے"۔

"وہ کیوں؟"

"یہاں ایک نئی وادی کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ گول بھی نہیں۔ ٹیڑھی میڑھی ہے بالکل اِس دور کے گناہوں کی طرح"۔

"ورجل، میں تو پہلے ہی تھک چکا ہوں۔ رنج و محن کے اس شہر اور اقلیم درد و الم میں موت بھی تو نہیں آتی کہ میری جان چھوٹ جائے۔ اب ایک اور گہرائی میں اترنا پڑے گا"۔

"دانتے! مشکل تو ہے لیکن اس کے علاوہ تمہارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ کیا تم نے دوزخ کے داخلی دروازے پر لگا ہوا بورڈ نہیں پڑھا تھا؟" اس در سے گزرنے والے کو چاہیے کہ امید و رجا کو پیچھے چھوڑتا جائے"۔

"ورجل، تم جیسے دانا و فرزانہ شاعر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی مجبور کا مذاق اڑائے"۔

"نہیں! دانتے دوزخ میں کوئی مذاق نہیں کرتا۔ یہاں سب اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔

تمہیں بتاتا چلوں کہ میں کیوں کر تجھ تک پہنچا۔ میں اس وقت اعراف میں متمکن تھا یعنی ان روحوں میں میرا شمار ہے جن کی نسبت ابھی کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوا۔ تیرا حال زار دیکھ کر مجھے رنج و افسوس ہو رہا تھا۔ اس حال میں ایک خاتون نے، جو نہایت نیک اور حسین ہے، چاہا کہ وہ مجھے کسی بات کا حکم دے۔ اس کی آنکھوں میں آفتاب کا سا نور تھا۔ اس نے نرم اور شیریں آواز میں مجھ سے کہنا شروع کیا، اے، عظیم شاعر، اے انیس روح، جس کی شہرت اب تک قائم ہے اور اس وقت تک قائم رہے گی جب تک یہ کائنات برقرار ہے، سن! میرا ایک دوست جو میرے مقدر کا رفیق نہیں بلکہ خود میری ذات ہے، صحرائے لق و دق میں سر گرداں ہے۔ ایک درندہ اس کی راہ روکے ہوئے کھڑا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں اس کی حالت ناقابل امداد نہ ہو جائے کیونکہ میں اس کی مدد کو دیر سے پہنچی۔ اے شاعر نیک نہاد عجلت کر، میں تجھے حکم دیتی ہوں کہ اس کی مدد کے لیے فوراً روانہ ہو۔

میں بیاترس ہوں اور میرا مسکن وہ ہے جہاں مسرت بار بار آتی ہے۔ عشق مجھ کو یہاں تک لایا ہے۔ اس عشق نے یہ باتیں میری زبان سے نکلوائی ہیں۔ جب میں اپنے آقا، اپنے خدا کے حضور میں جاؤں گی تو تیری تعریف کرتی رہوں گی۔

تیرا حسن تقریر، تیرا فن، تیری شاعری کی عظمت مجھے یقین دلاتی ہے کہ تو اسے دوزخ کی گھاٹیوں سے نکال لائے گا"۔

"ہاں ہاں۔ وہ بیاترس ہوگی! میری محبوبہ"۔ دانتے بیاترس کے بارے میں جان کر چلا اٹھا۔

بالکل بیاترس ہے۔ تمہاری محبوبہ جسے تم نے زندگی میں صرف دو مرتبہ دیکھا۔ وہ جنت میں تمہارا انتظار کر رہی ہے"۔

"اوہ، مائی لیڈی! میری محبت۔ وہ میرا انتظار کر رہی ہے۔ چلتے چلو، اب تو دوزخ بھی مشکل نہیں لگتی۔ میں ان مشکلات سے گزر کر بالآخر جنت میں پہنچ جاؤں گا اور تیسری دفعہ میں اپنی محبوبہ کو، اس نور الٰہی کو دیکھوں گا؟"

دانتے ورجل کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑا۔

"تم اس سے ملنے کے لیے بہت بے تاب ہو! "

"ہاں! تم جانتے ہی ہو"۔

"بہت اچھا۔ میں تمہیں وہاں لے جاؤں گا لیکن دانتے!

تمہاری بیوی بھی ادھر ہوگی کیا تم اسے بھی ملنا چاہو گے"۔

"وہ مصیبت ادھر بھی پہنچ گئی ہے؟"

"گیما دانتے کا کوارٹر بیاترس کے محل کے بالکل نیچے ہے۔ تم دونوں کو جنت میں اکٹھے دیکھ سکو گے"۔

"ورجل! " دانتے غصے سے اس کی طرف دیکھتا ہے۔

"وہ تمہاری بیوی تھی، تمہارے والدین کی پسند"۔

"کیا تم اس کا ذکر چھوڑ نہیں سکتے؟ والدین نے مجبور کیا میں نے شادی کر لی۔ ناکام ترین شادی"۔ دانتے غصے پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بات جاری رکھتا ہے۔

"وہ بدتمیز، بدمزاج اور ترش رو تھی۔ اس نے مجھ پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ میری روح گناہ آلودہ تھی۔ اس نے تن خاکی اس لیے اختیار کیا کہ دیوی بیاترس کی مقدس روح کے اثر سے اپنے گناہ دھو کر پاک اور منزہ ہو جائے۔ بیاترس جنت پدھاری تو گیما نے میری زندگی میں پھر گناہ بھر دیے۔ میری گناہ گار زندگی کا سبب میری بیوی کی حد درجہ کی بدمزاجی ہے۔ ایک کے بعد ایک گناہ، جس پر مجھے وہ اکساتی تھی۔ تم جانتے ہو گناہ کرنا ہی گناہ کی سزا ہے جو میں دنیا میں بھگت آیا ہوں اور یہاں بھی دوزخ میں جل رہا ہوں۔

دیکھو، میری حالت زار پر پھر بیاترس کو ہی رحم آیا اور مجھے یہاں سے نکالنے کے لیے تمہیں بھیجا"۔

"چلو اس کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں۔ تمہارے ماں باپ بھی ادھر ہی ہیں۔ اگر تم خود جنت تک پہنچ گئے تو ان سے پوچھ لینا۔ بیاترس زیادہ اچھی ہے یا گیما؟"

تم خوش قسمت ہو کہ قابل اعتراض جنسی رویے کے باوجود تمہارا آخری ٹھکانہ دوزخ کو وہ گڑھا نہیں جہاں تم جیسے گندے لوگوں کو سزا دی جاتی ہے۔ جہاں قلوپطرہ، ہیلن آف ٹرائے، ایکیلس، فرانسسکا جیسے دغا باز، شہوت پرست لوگ سزا بھگت رہے ہیں"۔

ورجل اسے لے کر دوزخ کے دوسرے حلقے میں داخل ہوتا ہے۔

اس کے دروازے پر انہوں نے مینوس کو دیکھا جس کا چہرہ پر ہیبت اور صورت کریہہ تھی۔ جب کوئی روح سامنے آتی وہ اسے اپنی دم میں لپیٹ لیتا اور جتنے بل اس پر کستا اتنے ہی نیچے دوزخ کے درجے میں پھینک دیا جاتا۔ سزا دینے میں وہ انتہائی سخت تھا۔

"ورجل مجھے دوزخ کے اس منصف سے شدید کراہت محسوس ہو رہی ہے۔ چلو یہاں سے چلیں"۔

"یہاں فیصلہ کرنے کی تمہیں آزادی نہیں"۔ ورجل اسے سمجھاتا ہے، "یہاں فیصلہ مینوس کرے گا"۔

"یہ کیسی فضول جگہ ہے جس میں حساب کتاب ایک ایسے سانپ کے ذمے ہے جو مردہ انسانوں کے گرد اپنی دم لپیٹ کر انہیں جکڑ کر فیصلہ کرتا ہو، ان پہ حکم چلاتا ہو"۔

"یہاں ازل سے یہی ہو رہا ہے"۔

دانتے غصے سے اس کی طرف دیکھتا ہے، "بالکل ویسے ہی جیسے تم رومیوں پہ قبضہ کر لیتے۔ ان کو فتح کر لیتے پھر ان پر حکم چلاتے۔ جو تمہارے زیر تسلط ہے، جو تمہارا غلام ہے وہ کیا کر سکتا ہے؟

تم وہ کام کرو جس کے لیے بیاترس نے تمہیں بھیجا ہے۔ مجھے اس کے پاس لے چلو۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس راستے پر چلتے چلتے مجھے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں سب سے گزر جاؤں گا۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں"۔

"میں تمہیں لے کر جاؤں گا۔ میں روم کا سب سے بڑا شاعر ہوں: میں انسانی جذبات کو سمجھتا ہوں"۔

"چلو، پھر چلتے چلو"۔

پہلا گڑھا ہو یا پانچواں وہی مظالم، وہی بدبو، بال اور گوشت کے جلنے کی گندھک جیسی بدبو۔ مغضوب و معتوب روحیں۔ جس طرف قدم بڑھاتے یا نگاہ جاتی غمگین اور حزین صورتیں ہی نظر آتیں۔ عیش و نشاط میں مبتلا رہنے والوں کے لیے گرم ہواؤں کے تھپیڑے اور طمانچے تھے تو حریص، شکم پرست اور بسیار خوروں کے لیے اولوں اور برف کی مسلسل بارشیں۔ ان کی روحیں سردی کیچڑ اور بد رنگ پانی میں پڑی لوٹنیاں کھا رہی تھیں۔ ان کے منہ ایسے کھلے تھے جیسے بھوک میں کتا منہ پھاڑتا ہے۔

سود خور، طامع، حریص، آتش مزاج لوگ جنہوں نے لوگوں پر تشدد کیا تھا، دوزخ کے ساتویں طبقے میں سزائیں بھگت رہے تھے۔ اس غار میں نوکیلی چٹانیں اور دشوار گزار راستے تھے۔ ورجل اور دانتے ایک چوٹی سے دوسری چٹان کی چوٹی پر کوندتے پھاندتے ہوئے غار کی تہہ میں اتر جاتے ہیں۔ یہاں خون کا دریا موجیں مارتا ہے۔

ان گھاٹیوں اور غاروں میں عجیب الخلقت مہیب جانوروں سے بچتے بچاتے وہ آٹھویں درجے میں داخل ہوتے ہیں۔ اس میں وہ روحیں سزا بھگت رہی ہیں جنہوں نے دنیا میں رہ کر طرح طرح کے دغا اور فریب کیے تھے۔ جنہوں نے اپنی لذت کے لیے دوسروں کو استعمال کیا۔ عورتوں کو اغوا کرکے ان کے فرائض و منصب سے غافل کیا۔ ایسے گنہگاروں کو بھوت اور دیو ایک غار میں کوڑے مارتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے تملق اور چاپلوسی سے کام نکالا ان کی روحیں بھی ایک ایسے غار میں مبتلائے عذاب تھیں جو نجاست بول و براز میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہاں نئی مصیبتیں، درد و عذاب اور نئے نئے کارکنان قہر الٰہی تھے جن کے سامنے برہنہ گنہگار سر پیٹ رہے تھے۔ دیو اور بھوت جن کے سروں پر سینگ نکلے تھے، ہاتھوں میں بڑے بڑے کوڑے لیے ان کی پیٹھ کوٹ رہے تھے۔

وہ ایک ایسے غار میں داخل ہوتے ہیں جن پر عبادت گاہوں کی خرید و فروخت کے مرتکب مذہبی لیڈروں کو سزا دی جا رہی ہوتی ہے۔ ان کی سزا کا طریقہ یہ تھا کہ ان کی روحیں چند سراخوں سے اس طرح لٹک رہی ہے کہ سر نیچے اور پاؤں اونچے ہیں مگر سوائے ٹانگوں کے سوراخ کے، باہر جسم کو کوئی اور حصہ نظر نہیں آ رہا۔ ان کے تلووں پر شعلے روشن ہیں۔ ورجل دانتے کو دوزخ کی سب سے نچلی تہہ میں لے جاتا ہے۔ یہاں وہ دیکھتا ہے کہ سب سے بڑے پوپ، ملاں دوسرے پادریوں پروہتوں اور مولویوں کے ساتھ اپنی بدکاریوں کی سخت سزا پا رہے ہیں۔

مذاہب کے کرتا دھرتا جو جنت کی ٹکٹیں بانٹتے تھے، لوگوں کو عذاب جہنم سے ڈراتے تھے، ان کو جہنم میں دیکھ کر دانتے کا دل بہت غمزدہ ہوتا ہے۔

قزاق اور سارق بھی اسی دوزخ میں سزا پا رہے تھے۔ سانپ جن کے نتھنوں سے آگ نکلتی تھی، لپٹ لپٹ کر ان کو کاٹتے اور وہ زمین میں دھنس جاتے۔

یہیں کیمیا گر اور جعلسازوں کے رونے پیٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں جو طرح طرح کی وباؤں اور امراض میں مبتلا تھے۔ زخموں نے ان کی صورتیں بگاڑ دی تھیں۔

دونوں شاعر ایک نفیر کی تیز آواز پر چلتے چلتے دوزخ کے نویں طبقے میں پہنچتے ہیں۔ نفیر اس قدر زور سے پھونکا جا رہا تھا کہ اس کے سامنے بادل کی گرج بھی خفیف معلوم ہوتی تھی۔ اس گڑھے میں وہ لوگ ڈالے گئے تھے جو خلیق اور نیک بن کر دوسروں کے ساتھ شرارت اور خیانت کرتے ہیں۔ وہ گنہگار بھی جنہوں نے اپنوں کے ساتھ بے وفائی کی۔ ورجل اس کا تعارف ایک ایسی روح سے کرواتا ہے جس کا سر دیو کے منہ میں اور ٹانگیں باہر لٹکی ہوئی تھیں۔ یہ تکلیفوں میں گھری روح یہودہ اسکریوتی کی تھی جس نے اپنے آقا یسوع مسیح کی مخبری کی۔ ایسی روحیں بھی تھیں جن کے سر اندر تھے۔ ورجل بتاتا ہے کہ جس کا سیاہ منہ باہر لٹکا ہوا ہے وہ بروٹس ہے۔ دیکھو وہ کس قدر تڑپ رہا ہے لیکن منہ سے کچھ نہیں کہتا۔

پھر وہ اس گھاٹی میں پہنچے جو سیاست دانوں کی دوزخ ہے لڑائیاں جھگڑے منافقتیں کھینچا تانی سب یہاں ہے۔ ان کے سر جڑے تھے اور تین تین چہرے تھے۔ سامنے والا چہرہ سرخ سیندور کے رنگ کا، دائیں طرف والا پیلا اور زرد سیاہی مائل اور بائیں چہرے کا رنگ کالا سیاہ جیسے سارے دوزخ کی راکھ اس پر مل دی گئی ہو۔

"اس میں دیکھو تمہاری کانگریس اور پارلیمنٹ کے نمائندے موجود ہیں۔ بڑے بڑے سیاستدان، بڑے بڑے جرنیل سب ہیں۔ ان کے کپڑے دیکھو کیسے نیلی آگ کا سوٹ پہنے کھڑے ہیں اور کچھ کالے دھویں کے کوٹ میں ملبوس ہیں۔ ان ضمیر فروشوں کے سینے میں اپنے اپنے ملک کے جھنڈے کا نیزہ گڑا ہوا تھا۔ یہ وہی جھنڈا تھا جسے انہوں نے ملکی وفاداری کی علامت کے طور پر کوٹ پر لگایا ہوتا تھا۔ ہر گناہ گار کے دانت ایک دوسرے کو یوں چبا رہے تھے جیسے زبردست چکی میں دڑ دڑ پیسے جا رہے ہوں۔ اکثر کی پشت سے ساری کھال ادھڑ چکی تھی۔

ان کے درمیان وہ شاہ جہنم لوسیفر کو دیکھتے ہیں۔ شیطان ٹانگیں اونچی اور سر نیچا کیے کھڑا تھا۔

دانتے اب دوزخ سے باہر نکلنے کا سوچ رہا تھا۔ اس کی سانس تھکے ماندے انسان کی طرح پھول رہی تھی۔ ورجل نے اسے پکارا کہ سامنے جو سیڑھی نظر آ رہی ہے اس سے ہمیں دوزخ سے باہر نکلنا ہے۔ لوسیفر انہیں دیکھ کر ہنسنے لگا، "ورجل، تم بھول گئے ہو ابھی ایک گڑھا اور موجود ہے"۔

دانتے کو یاد آ گیا ورجل نے بتایا تھا کہ اب دوزخ کو وسیع کیا جا رہا ہے۔

تھکا ماندہ دانتے ورجل کا ہاتھ پکڑ کر نئی جہنم میں داخل ہوتا ہے۔ جہنم کا دسواں درجہ، ٹیڑھا میڑھا گڑھا، انتہائی وسیع جس میں موجود گھاٹیوں اور غاروں کا کوئی شمار نہیں۔

گیٹ نمبر دس کا نوشتہ تھا۔

"تم جو یہاں داخل ہو رہے ہو تمام انسانی احساسات باہر ہی چھوڑ جاؤ۔ مقبولیت کے باطل کے سامنے صداقت اور حقائق کے ہتھیار ادھر ہی پھینک دو۔

بے شمار روحیں وہاں عذاب جھیل رہی تھیں۔ کسی کی صورت بگڑی ہوئی تھی تو کوئی ایسا بنا سنورا جیسے ابھی پارلر سے نکل کر آیا ہو لیکن میک آپ کی تہوں میں جلن ہی جلن تھی۔

وہ ایک اندھے کنویں میں داخل ہوئے جہاں موسیقی کا شور تھا۔ گونج اتنی تھی کہ کان پھاڑ کر دماغ کا لاوہ باہر نکل رہا تھا۔ یک دم ایک موذی عفریت غار میں داخل ہوا اور چلانے لگا دوزخ میں دھماکے ہوئے ہیں ہزاروں روحیں جلس گئی ہیں اور ہر طرف خون ہی خون بکھرا ہوا ہے۔ سب پریشانی سے ادھر بھاگ گئے۔

وہ ہنسنے لگا۔

وہ وہاں سے نکل کر ایک دوسری گھاٹی میں داخل ہوئے۔ ادھر روحوں کو سر سے ٹانگوں کے سوراخ تک چیر دیا گیا تھا۔ دانتے نے ورجل سے پوچھا، "ان کا کیا قصور ہے؟"

عظیم شاعر بولا "یہ تمہارے بعد کے دور کے وہ لوگ ہیں جو جھوٹی باتیں بیان کرکے سنسنی پھیلاتے تھے۔ شرفا کو ذلیل و خوار کرکے اپنی جھوٹی عظمت کا پرچار کرتے تھے۔ اس یوٹیوبر کو دیکھو، یہ ہجو کا بادشاہ تھا، پچھلی زندگی میں اس ٹرولر، اس خبیث روح کا غرور اور نخوت شہرہ آفاق تھا۔ اس کو کائنات کے تمام آلام و مصائب نے گھیر رکھا ہے۔

واہ عدل خداوندی، تو نے کیسے کیسے درد و عذاب کے تودے اور انبار لگا رکھے ہیں۔ بغض و عناد کے بیج بو کر ان کی آبیاری کرنے والے اب رحم رحم پکار رہے ہیں۔ ساری دنیا کی خبریں دینے والے کیا یہ نہیں جانتے کہ انصاف خداوندی رحم پر مقدم ہے۔

اسی جگہ انہیں جہنم کی ذریات خون میں آلودہ نظر آئیں۔ ان کے اعضاء کی قطع اور حرکات سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ عورتیں ہیں۔ یہ قہر و غضب کی چڑیلیں تھی گہرے سبز رنگ کے سانپوں نے جن کے کئی کئی سر تھے ان کے جسم پر اپنے بل کس رکھے تھے۔ ان چڑیلوں کا شغل اس وقت یہ تھا کہ ایک دوسرے کی برہنہ چھاتی کو اپنے ناخنوں سے نوچتی تھیں اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا سینہ بھی پیٹتی جاتی تھیں۔ یہ ٹک ٹاکرز کی روحیں تھیں۔ ان سب کا حال لکھنا سعی عبث ہے۔

اس دوزخ کا کوئی انت نہیں۔ یہ مقبولیت کا گڑھا ہے، یہ ٹرولنگ کا عذاب ہے۔ یہ سوشل میڈیا کی دوزخ ہے یہاں سے کوئی بھی نہیں نکل سکتا۔

ورجل نے دانتے کی طرف دیکھا، اس جہنم نے دوزخ کے تمام طبقات سے بچ کر نکل آنے والے دانتے کی داڑھی کڑبڑی اور رنگت سیاہ کر دی تھی۔