1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد اشتیاق
  4. عین جالوت - مظفر الدین القطز (3)

عین جالوت - مظفر الدین القطز (3)

1260 عیسوی، 658 ہجری، صفر کے مہینے میں منگول فوج شام کے دارا لحکومت دمشق میں داخل ہوئی۔ سقوط بغداد کے بعد یہ ایک اور بڑا جھٹکا تھا جو ملت اسلامیہ کو لگا۔ ملک شام جو عظمت اسلام کی نشانی اور صلاح الدین ایوبی کے وارثوں کا فخر تھا، منگول گھوڑوں کی سموں کے نیچے تھا، وحشت شام کی گلیوں میں ناچ رہی تھی۔ ایوبی تخت کا آخری وارث سلطان الناصر صحیح وقت پر صحیح فیصلہ نہ کر پایا۔ اس کے رفقا جنہوں نے منگولوں کے ساتھ صلح کا مشورہ دیا تھا اب وہ ان سے رحم کی امید رکھتے تھے۔ وہ بھول گئے تھے کہ چند دن پہلے ہی حلب میں منگولوں نے قلعہ حوالے کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ توران شاہ بن صلاح الدین نے بھی رکن الدین بیبرس کی طرح اپنی فوج کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ منگولوں سے لڑکے عزت کی موت، ان کے سامنے سرجھکا کے ذلت کی موت سے بہتر ہے لیکن خوف کا شکار امراء لڑنے کو تیار نہ ہوئے۔ آدھا حلب تہہ تیغ ہوا لیکن اہل دمشق نے اس سے بھی سبق نہ سیکھا اور اہل حلب کی طرح منگولوں سے صلح کو ترجیح دی۔

رکن الدین بیبرس اور قالون مایوس ہو کر اپنے ہمراہوں سمیت دمشق چھوڑ کے غزہ کی جانب روانہ ہو گئے۔

جیسے جیسے منگول دمشق کے قریب آئے، سلطان ناصر پہ خوف کے سائے گہرے ہونے لگے، اپنے قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں کے جانے کے بعد وہ اپنے آپ کو کمزور محسوس کرنے لگا تھا۔ تلوار نہ اٹھانے کا فیصلہ اس کا اپنا تھا۔ جنہوں نے اس کے ساتھ عیسائیوں کو شکست دی تھی، جو اس کے حکم پہ سلطان مصر پہ چڑھائی کرنے کو تیار بیٹھے تھے، وہ جنگجو بھلا تلوار منگولوں کے حوالے کرنے پر کیسے تیار ہو جاتے۔ بغیر لڑے وہ شکست کیسے تسلیم کرلیتے جن کی سرشت میں لڑنا تھا۔ اس کو احساس تھا کہ جو اس کے ساتھ ہیں وہ بھی اس کے فیصلے سے خوش نہیں۔ اس کی بزدلی نے اس کی فوج کو منتشر کر دیا تھا۔ سلطان کو منگولوں پر اعتماد نہیں تھا لیکن وہ ان سے ٹکرانا بھی بے وقوفی سمجھتا تھا۔ ذلت کے خوف نے اسے منگولوں کے سامنے پیش ہونے سے روک دیا اور وہ شہر میں ان کے داخل ہونے سے پہلے اپنے فوج اور امرا کے ساتھ دمشق چھوڑ گیا۔

منگولوں نے شہر میں داخل ہوتے ہی فصیل شہر کا انہدام شروع کر دیا۔ گلیوں میں شراب کا چھڑکاو شروع ہوگیا۔ مسجدوں کی بےحرمتی ہونے لگی۔ شراب لے کے منگول فوجی مسجدوں میں گھس گئے۔ نصاری کی جماعتیں جو ہلاکو کی اشیرباد حاصل کر چکی تھیں، مسجدوں میں ناقوس بجانے لگیں۔ مسجدوں میں صلیب کی تنصیب کر دی گئی۔ جانوں کا ضیاع اور عزتوں کی پامالی منگول سپاہیوں کی فتح کا انعام ہوتا تھا جس کو وہ اہل دمشق سے وصول کر رہے تھے۔

بوڑھا منگول سالار کتبغا نوین گھوڑے پہ سوار شہر میں داخل ہوا۔ اس کے ہمراہ شاہ آرمینیا ہیٹن اور انطاکیہ کا صلیبی بادشاہ بوہیمند تھے۔ شہر کے معززین اور وہ امرا جو سلطان ناصر کے ساتھ جانے کی بجائے شہر میں رک گئے تھے، ایک قطار میں کھڑے تھے۔ کتبغا ایک بارعب شخصیت کا مالک تھا۔ اپنی عمرکے حساب سے وہ کافی صحت مند اور پھرتیلا تھا۔ اس کی لمبی سفید داڑھی ہوا میں اڑ رہی تھی جس کو وہ کبھی کبھی کانوں پر اڑستا تھا۔ مضبوط جسم اس کی جنگجوانہ زندگی کی نشاندہی کر رہا تھا۔

وہ شامی امراء کو ساتھ لیے دمشق کے بازار میں وارد ہوا۔ دمشق کا بازار اجڑا پڑا تھا۔ جا بجا سامان بکھرا تھا۔ اکا دکا جگہوں پر ڈھیریوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ کتبغا کی آمد سے پہلے دوکانوں کو لوٹنے والے منگول سپاہی اب کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ کتبغا بازار کے مرکز میں ٹھہر گیا۔ امراء ایک طرف قطار میں کھڑے ہو گئے۔

"ناصر کدھر ہے؟"

"وہ شہر چھوڑ کر چلے گئے" ایک امیر نے جواب دیا۔

"کہاں گیا؟" کتبغا نے اس امیر کو گھورا۔

"معلوم نہیں "، سردار تیز نظروں سے گھبرا گیا تھا۔

"تم اس کے امیر ہو اور تمہیں خبر نہیں؟ بے خبر لوگ میرے کسی کام کے نہیں "، کتبغا کڑکا۔

"ان کا رخ مصر کی طرف تھا"، سردار گڑبڑایا۔

"تو کیا وہ مصر کے سلطان کے پاس جا رہا ہے؟"

"نہیں، وہاں کا قصد نہیں "، ایک اور سردار نے ہمت کی۔

"اسے یہاں ہونا چاہیے تھا، کیا وہ فوج اکٹھی کرنے گیا ہے؟"، کتبغا نے سب سے سوال کیا۔

سر جھکائے، سب امراء خاموش تھے۔

"اسے سلطان مصر کے پاس بھی پناہ نہیں ملے گی۔ سلطان مصر کے دن بھی گنے جا چکے ہیں "، کتبغا نے اپنے خادم کو اشارہ کیا اور ایک کھلی دوکان میں گھس گیا۔ دوکان بالکل خالی تھی۔ شائد قیمتی سامان پر مشتمل تھی تبھی اچکوں نے اس کا مکمل صفایا کر دیا تھا۔ کتبغا نے اپنی عبا اٹھا کے ازار بند کھولتے ہوئے پوچھا۔

"سلطان کے ساتھ کتنے سپاہی تھے؟"

"چند سو سوار ہی ہوں گے" کتبغا کی حرکت پہ حیران پریشان ایک امیر بولا۔

"اور پیادہ؟"، وہ آزار بند کھول کے کپڑوں سے آزاد ہوتا وہیں بیٹھ گیا۔

امراء کراہت اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔

"میں نے کچھ پوچھا تم سے؟"۔۔ حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے کتبغا نے دوبارہ پوچھا۔

"کوئی نہیں، چند خدام بس"، ایک امیر نے سر جھکائے جواب دیا۔

"باقی کی فوج کہاں ہے؟"

"امیر بیبرس کے ساتھ روانہ ہوئی"

"ان کی منزل؟"

"نامعلوم"

"سب چلے گئے تم کم علموں کو میرے لیے چھوڑ گئے، تم میرے کسی کام کے نہیں ہو"۔

"اس کا رخ بھی مصر کی طرف تھا مگر وہ بھی سلطان مصر کے پاس نہیں جائے گا"۔

"کیوں؟" کتبغا اٹھا، خادم نے صفائی کے فرائض سرانجام دئیے۔

"سلطان مصر، امیر بیبرس سے نفرت کرتا ہے اور امیر بھی اس کو پسند نہیں کرتا"۔

"ہمممممم" کتبغا گھوڑے پہ سوار ہوا۔

"اب تم لوگ جا سکتے ہو۔ میرا نائب تم لوگوں کے بارے فیصلہ سنا دے گا"۔

نائب امراء کو جانے کا اشارہ کرتا ہے اور کتبغا کے قریب اپنا گھوڑا لے جاتا ہے۔

"ان کا کیا کرنا ہے؟" نائب نے سوال کیا۔

"ان میں سے چند کے سر فصیل پہ نصب کرا دو اور خان کو پیغام بھیجو۔ سلطان کی بکھری فوج مصر میں اکٹھی ہوگی۔ مصر پر حملہ ناگزیر ہے اور جلد سے جلد ہمیں یہ قدم اٹھانا ہوگا"۔

کتبغا نے نائب کو حکم دیا۔

"چند دستے ان امراء کے بتائے راستے پہ ناصر کے تعاقب میں روانہ کرو۔ اسے مصر نہیں پہنچنا چاہیے"۔

"مگر وہ تو ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں پھر انہیں کون اکٹھا کرے گا؟"

"موت کا خوف"۔۔ کتبغا ہنسا۔

اس رات دمشق کی فصیل پہ چند امراء کے سر لٹک رہے تھے جنہوں نے لڑنے کی بجائے ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیا تھا۔ باقیوں کے کب اور کہاں لٹکیں گے اس کا فیصلہ ہونا باقی تھا۔

"سلطان! منگول خان، ہلاکو خان کا ایلچی حاضری کی اجازت چاہتا ہے"، خادم نے سلطان قطز کو اطلاع دی۔

"بھیجو"، سلطان نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔

"منگول دمشق تک نہیں رکیں گے۔ یہ ایلچی اتمام حجت ہے"، امیر بدرالدین بکتوت نے رائے کا اظہار کیا۔

"یہ تو طے ہے کہ یہ طوفان رکنے والا نہیں، اسے روکنا پڑے گا"، سلطان نے مضبوط ارادے کا اظہار کیا۔

"ابھی تک کوئی اس طوفان کے آگے بند نہیں باندھ پایا سلطان"، امیر بہادر المعیزی بولا۔

منگول وفد دربار میں داخل ہوتا ہے، روایتی منگول فوجی لباس میں ملبوس منگول سفیر دربار میں موجود امراء پہ نظر دوڑاتے ہوئے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سلطان پہ مرکوز کرتا ہے۔

"سلطان! میں تمہارے لیے خانوں کے خان، فاتح بغداد و دمشق ہلاکو خان کا پیغام لایا ہوں "، سفیر گویا ہوا۔

سلطان اس پہ نظریں گاڑے دیکھ رہا ہے، سفارت کار کا کروفر سفارتی آداب سے میل نہیں کھاتا۔

"پیغام یہ ہے"، سفیر احکام جاری کرنے کے انداز میں کہتا ہے، سلطان سپاٹ چہرے سے اس کو بغور دیکھ رہا ہے۔

"مشرق اور مغرب کے خانوں کے خان کی طرف سے۔۔

مملوک قطز کے نام، جو ہماری تلوار سے بچا ہوا ہے۔۔

تمہیں چاہیے کہ تم ان سے عبرت حاصل کرو جن ممالک کو ہم نے تباہ کردیا اور گھٹنے ٹیک دو۔ تمہیں پتہ ہوگا کہ ہم نے بہت بڑیزمین پر اپنے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں اور اس کو پاک کر دیا ہے۔ ہم نے اپنے مقبوضہ علاقے میں اکثریت کو تہ تیغ کر دیا ہے۔ تمہمارے قہر سے نہیں بچ سکتے۔ بچ کر جاؤ گے بھی کہاں؟ کس راستے سے بھاگو گے؟ ہمارے گھوڑے سبک رفتار، تیر تیز دھار، تلواریں جیسے چمکتی ہوئی بجلی، ہمارے دل پتھروں کی طرح سخت اور لشکر لا تعداد ہیں۔

قلعے تمہیں نہیں بچا سکتے، فوج تمہیں محفوظ نہیں رکھ پائے گی۔ تمہاری دعائیں بھی تمہیں محفوظ نہیں رکھ سکتیں اور نہ ہی ہم تمہاری چیخ و پکار کی پرواہ کریں گے۔ صرف انکی جان بچے گی، جو ہم سے پناہ مانگیں گے۔ جلد سے جلد ہمیں اپنے جواب سے آگاہ کرو۔ مزاحمت کرو گے تو تباہی تمہار مقدر ہوگی، ہم تمہاری مسجدیں گرا دیں گے تو تمہیں پتہ لگے گا کہ تمہارا خدا کتنا بے وقعت ہے۔ ہم تمہیں اس کا ثبوت تمہارے بچوں اوربزرگوں کی گردنیں اڑا کر دیں گے۔

تم اس وقت دنیا میں واحد آدمی ہو جس کی طرف ہماری فوج پیش قدمی کرے گی۔

ہلاکو خان"

امراء ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ چہ میگوئیاں شروع ہو چکی تھیں۔ منگول سفیر استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ سب کو دیکھ رہا تھا۔ سلطان سپاٹ چہرے کے ساتھ سوچ میں گم تھا جیسے دماغ کے پیمانے پہ وزن کر رہا ہو۔

سلطان کا ہاتھ بلند ہوا، سب خاموش ہوگئے۔

"قطز کیا کہتے ہو؟"، سلطان کے بولنے سے پہلے سفیر نے بدتمیزی سے سوال داغ دیا۔

سلطان نے اس پہ نظر ڈالی اور بولا۔۔

"تمہارے خان کے الفاظ خوفزدہ کر دینے والے اور سچے ہیں۔ تم نے آدھی دنیا کو اپنے گھوڑوں تلے روند دیا ہے، قلعے منہدم کردیئے، لوگوں کو تہ تیغ کردیا۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ ناصر جیسے بہادر کو کیسے خوف دلایا تم نے۔ مگر ان کامیابیوں نے تمہاری زبانیں مزید دراز کر دی ہیں۔ تم ہمیں موت کا خوف دلاتے ہو، اپنی تلواروں سے ڈراتے ہو۔ جان لو کہ ہمارے نزدیک تمہاری حیثیت دوزخ کے کتوں سی ہے، جو امت مسلمہ کو جگانے کے لیے آسمان سے اتارے گئے ہیں۔ یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے جو ہم اپنا خون دے کے بھگت رہے ہیں۔ مالک کی یہ مرضی ہے تو ہم اپناخون بہانے سے دریغ نہیں کریں گے۔

تمہارے خان جیسے بہت آئے اس دنیا میں جن کے نزدیک خدا ایک بے وقعت شے تھی لیکن ان کی حیثیت خدا کے نزدیک ہوا میں اڑنے والے ایک مچھر سے زیادہ نہیں۔ خدا خود زمین پر نہیں اترتا کسی کو اپنے ہونے کا یقین دلانے کے لیے۔ لیکن خدا کا احساس ایک چیخ کی مانند تمہارے خان کے کانوں میں گونجے گا، یہ ہمارا وعدہ ہے۔ یہ قطز کا وعدہ ہے۔ یہ مصر کا وعدہ ہے"۔

سلطان کی آواز میں گرج تھی، غصے سے کپکپاہٹ تھی۔ دربار میں ایسی خاموشی تھی کہ سانسوں کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔

سفیر نے حیرانگی سے قطز کو دیکھا اور بولا۔

"سوچ لو قطز، تمہاری اور مصر کی تباہی۔۔ "

"خاموش"، سلطان قطز دھاڑا۔

"تم ہمیں تباہی سے ڈراتے ہو؟ دولت کھو دینا، اقتدار کی قربانی دینا، زمین کا قبضہ کھو دینا، مر جانا ہمارے نزدیک تباہی نہیں ہے۔ اپنے خدا کے حکم سے روگردانی کرکے کسی انسان کے آگے سر جھکا دینا۔۔ یہ تباہی ہے۔

یہ جان اللہ کی دی ہوئی ہے وہ واپس لے لے گا۔ یہ جسم ہمیشہ نہیں رہنا خاک میں مل جائے گا۔ ہمارے لیے ذلت کی زندگی جینا تباہی ہے، خدا کے نام پہ مرنا تباہی نہیں۔ تم ہمیں موت سے ڈراتے ہو؟ قطز آج ہے کل نہیں ہوگا لیکن خدا نے ہمیشہ رہنا ہے۔ وہ ایک غلام کو مصر کے تخت پہ بٹھا سکتا ہے تو وہ اس غلام کو یہ توفیق بھی دے گا کہ منگول مینڈھے کے سینگ پکڑ کے اس کی ٹانگوں کے درمیان کر دے"۔

"ہم نے بہت مسلمانوں کو مسلا ہے۔ انہیں تمہارے خدا کے پاس بھیج دیا۔ تمہارا خدا مصروف ہے ان بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا استقبال کرنے میں جن کو ہم نے اپنی تلواروں اور نیزوں سے اس کے پاس بھجوا دیا ہے"، سفیر نے تضحیک آمیز انداز میں کہا۔

"میرا خدا کیا ہے، یہ تم اس کے پاس جا کر دیکھو گے اور اس میں زیادہ دیر نہیں۔ افسوس کہ تم اپنے خان کا انجام نہ دیکھ پاؤ گے" سلطان نے اس پہ نظریں جماتے ہوئے کہا۔

"تم مجھے مارو گے؟" سفیر نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا۔

"صرف تمہیں نہیں، تم سب کو" سلطان بولا۔

"لے جاؤ ان کو اور ان کے سر قاہرہ کے دروازے پہ نظر آنے چاہیے ہیں۔ ان کی زبانیں ان کے نیزوں سے زیادہ لمبی ہیں۔ خوارزم شاہ نے ان کے ساتھ بالکل صحیح کیا تھا، لیکن اب کی دفعہ ان کو ہم بتائیں گے کہ خدا کیسے اپنا آپ ظاہر کرتا ہے"۔ سلطاننے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

اگلی صبح قاہرہ کے دروازے پر منگول سفیروں کے سروں سے خون ٹپک ٹپک کے ریت کو سرخ کر رہا تھا۔ منگول طوفان کا رخ قاہرہ کی طرف ہونے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

جاری۔۔

محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔