اسے یقین تھا کہ یہ چٹان اس کے حسین تصورات کا روپ دھارے گی۔ سرمئی دھنک اور سپیدی سے ابھرتی باریک سیاہ لکیروں میں خلط ملط شبیہ ظہور پذیر ہونے کو ترس رہی تھی۔ اس کے ہاتھ اوپر پڑی ٹیڑھی میڑھی سنگی چادر ہٹا دیں تو غیر واضح جسم سامنے آ جائے گا۔ مجسمے کا ایک ایک نقش اور خط اس کے دماغ میں محفوظ تھا۔ اس نے کاغذ پر بھی تین طرفہ شبیہ بنا لی تھی۔ چھینی ہتھوڑی سے موٹے موٹے پتھر تو ہٹا دیے لیکن جب چھوٹے اوزار کا استعمال شروع ہوا کہ ناک نقشہ لکیرا جا سکے تو ہاتھوں کی کپکپاہٹ راستے کا پتھر بن گئی۔ مجسمے کے خفیف و دبیز نشیب و فراز تراشتے وقت آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔
پچھلے کئی دنوں سے جوڑوں کی دُکھن اور انگلیوں کی سوجن بڑھتی جا رہی تھی۔ چھینی ہتھوڑی ہاتھ سے گر گئی۔ اس میں ہمت نہیں تھی کہ انہیں اٹھا کر کام شروع کر سکے۔
اب دنیا میں اس کے نام کی پہچان ہونا شروع ہوئی تھی اور اب ہی اس کی صحت رکاوٹ بننے لگی تھی۔ طیراش خود پر گزرنے والی کیفیت بتا نہیں سکتا تھا۔ پتھر اس کے ہاتھ میں موم بن جاتے تھے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کے خیالات بہتر سے بہتر ہو رہے تھے لیکن ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور جوڑوں کی سوجن ان خیالات کو مجسم کرنے میں رکاوٹ بنتی جا رہی تھی۔ اب جسم بغاوت کر رہا تھا کوشش کے باوجود وہ اس سرکشی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔
وہ پتھر کو تکتے ہوئے دیر تک سوچتا رہا۔ خیالات کے بھنور اس کے دل و دماغ کو سوچنے پر مجبور کر رہے تھے کہ ڈاکٹر قیصر کی بات مان لے۔ وہ اضطراری انداز میں ہاتھوں کو زور زور سے زور سے پتھر پر مارنے لگا۔ دل کی دھڑکن تیز اور سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی۔ بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔
وہ مقامی کالج میں پڑھاتا تھا۔ سنگ تراشی اس کا شوق تھا اس کام میں توجہ اور محنت کے ساتھ پرسکون ماحول ضروری ہوتا ہے اس لیے شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے دور پرسکون علاقے میں گھر بنوایا۔ وہ ساری ساری رات برآمدے میں بیٹھا کام کرتا رہتا۔ بیوی اور بچہ کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔
بڑھاپے کی پیاری اولاد اور آج کل کے تعلیمی اخراجات۔ سنگ تراشی اس کی اضافی آمدن تھی۔ اس کے مجسمے ہاتھوں ہاتھ بک جاتے۔ صرف تنخواہ سے یونیورسٹی کے اخراجات تو پورے نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ اس کی دوسری بڑی پریشانی تھی جو ڈاکٹر قیصر کے مشورہ کو ماننے پر مجبور کر رہی تھی۔
وہ فرش پر نظریں گاڑے دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔ آنکھوں سے برستے آنسو فرش کو بھگو رہے تھے۔
اسے پتا نہیں چلا کہ کب رابعہ اس کے پیچھے آ کر کھڑی ہوگئی تھی۔ اسے آزردہ دیکھ کر رابعہ نے اپنے بازو اس کی گردن میں حمائل کر دیے۔
"آپ تھک گئے ہوں گے، اب کمرے میں آ جائیں"۔
"انگلیاں ساتھ نہیں دے رہیں، ہاتھ کانپ رہے ہیں"۔
"نہیں ہوتا تو یہ کام ہی چھوڑ دیں"۔
"کیسے چھوڑ دوں؟"
"آپ کا اصل کام تو پڑھانا ہے۔ تنخواہ کافی ہے۔ ہم اس میں بہت اچھی طرح گزارہ کر سکتے ہیں"۔
"کافی ہے، بہت نہیں۔ بچہ بڑا ہو رہا ہے۔ تعلیم کے لیے زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی یہ میرا شوق ہے میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟
سال ہا سال کی محنت کے بعد میں اس کام میں ماہر ہوا ہوں اور اب میرا جسم ساتھ چھوڑ گیا ہے۔ کیسے بتاؤں میں کیا محسوس کرتا ہوں؟ میرے اندر ایک مکمل سنگتراش بیٹھا ہے جو باہر آنے کو تڑپ رہا ہے"۔
"لیکن ہم اس تجربے سے نہیں گزریں گے"۔
"ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق حالات بہتر ہوجائیں گے۔ میرے ہاتھ ٹھیک ہو گئے تو میں ایک بہترین مجسمہ بنا سکوں گا"۔
رابعہ پتھر کو چھوتے ہوئے کہنے لگی، "یہ نامکمل رہتا ہے تو رہنے دیں ہم تو مکمل ہیں"۔
"میرا فن نامکمل رہ جائے گا۔
ڈاکٹر قیصر نے بہت امید دلائی ہے کہ میں بہتر ہو جاؤں گا"۔
"اگر اس کام میں تمہیں کوئی نقصان پہنچ گیا تو ہم کیا کریں گے۔ آج کل کے ڈاکٹرز مسیحا نہیں صحت بیچنے والے سوداگر ہیں۔ یہ اپنی پراڈکٹ بیچتے ہیں۔ یہ وہ انجینیئر ہیں جن کو اپنے پروجیکٹ کی کامیابی سے غرض ہے چاہے مریض کا کچھ اور نقصان ہو جائے"۔
یہی باتیں کرتے وہ کمرے میں آ گئے۔
وہ بیڈ پر لیٹ کر بھی ڈاکٹر قیصر کی باتوں پر غور کر رہا تھا۔
صبح سات بجتے ہی ڈاکٹر کا میسج موصول ہوا، "آج آپ کی اپائنٹمنٹ ہے، سوچ کر آئیں۔ زندگی سدھارنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں"۔
***
طیراش اپریشن ٹیبل پر لیٹا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ لاکھوں کروڑوں چھوٹے چھوٹے کمپیوٹرز اتنی خاموشی سے خون کے اندر شامل ہو رہے تھے کہ کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ نینو کمپیوٹرز اس کے جسم کے اندر ہر جگہ پر پھیل چکے ہوں گے۔ کیپلریز سے ہوتے ہوئے صرف اس کے ہاتھوں کے اندر نہیں اس کے دماغ میں بھی پہنچ چکے ہوں گے۔ انسانی احساسات سے عاری یہ مشینیں اس کے جسم میں ہر جگہ پر قبضہ جما رہی تھیں۔ ڈاکٹر قیصر سامنے لگے مونیٹر پر اس کے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر دیکھ رہا تھا۔ مسکراتے ہوئے ایک اچٹتی سی نگاہ پاس کھڑی اس کی بیوی پر ڈالی۔
پھر پوچھا، "کچھ محسوس تو نہیں ہو رہا؟ ایوری تھنگ اوکے؟"
طیراش نے مطمئن لیجے میں جواب دیا، "بالکل ٹھیک! میری انگلیوں میں، جوڑوں میں ہلکا ہلکا ارتعاش محسوس ہو رہا ہے یوں لگتا ہے جیسے لاکھوں کروڑوں چیونٹیاں آہستہ آہستہ چل رہی ہوں"۔
"یہ نارمل میکینزم ہے۔ ابھی آپ کو یہی محسوس ہوگا۔ تبدیلی کچھ دنوں میں شروع ہوگی۔ یہ نینو کمپیوٹرز اندر جا کر متعلقہ جگہ پر بیٹھ جائیں گے، پھر آہستہ آہستہ کئی ماہ بلکہ سال تک اپنا کام کرتے رہیں گے"۔
"یہ میرے دماغ پر کیسے اثر انداز ہوں گے؟"
"یہ نینو کمپیوٹرز دماغ کے اس حصے پر کام کریں گے جہاں انسانی احساسات محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے۔ تم پیدائشی بت گر ہو، یہ فن تمہیں قدرت نے ودیعت کیا ہے۔ تمہارا دماغ اس طرف زیادہ چلتا ہے اور اسی چیز کو یہ نینو کمپیوٹرز مزید بہتر کر دیں گے"۔
طیراش آنکھیں بند کرکے خیالوں میں کھو گیا۔
ڈاکٹر قیصر نے اپنی بات جاری رکھی، "جیسا کہ تمہیں پہلے بتایا تھا ہمارے اکثر مریض جوں ہی خود کو بہتر پاتے ہیں اپنے کام پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ چیزوں کے نئے طریقے سے جانچنے لگتے ہیں، نئے پیمانے بنا لیتے ہیں، نئی منازل کو ڈھونڈنے چل پڑتے ہیں"۔
"نئی منازل؟" طیراش نے پوچھا۔
"آپ کی ترجیحات بدل سکتی ہیں۔ آپ کا دماغ فن پر مرکوز ہو جائے گا اور سماجی رابطوں کی پرواہ نہیں کرے گا۔ بلکہ ایسے کاموں کا آپ کے پاس وقت ہی نہیں بچے گا۔ یہ کوئی انوکھی صورت نہیں۔ قدرتی طور پر بہت سے عظیم فنکاروں کے ساتھ یہی سب کچھ ہوتا ہے، بس ہمارے ان صحت یاب لوگوں میں یہ عمل بہت تیز اور زیادہ زبردست ہو جاتا ہے"۔
طیراش کو ایک جھٹکا سا لگا۔ اس نے اپنا فون پکڑ لیا۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ اسے ان باتوں کی کوئی فکر نہیں۔
ڈاکٹر خوش ہو کر اس کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا، "جو بھی ہم سے علاج کروا کر گیا کبھی پچھتایا ہے اور نہ ہی کبھی ہمارے پاس واپس آیا ہے کہ مجھے میرا ماضی لوٹا دو۔
گرچہ یہ ممکن بھی نہیں"۔
طیراش مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
کچھ دن پہلے کی رابعہ کی باتیں اس کے دماغ میں گھوم رہی تھی، "اگر اس نے تمہیں اتنا بدل دیا کہ تم اپنے فن میں ہی کھو گئے جیسے اکثر فنکار دنیا و مافیہا کو بھول کر خود کو بھی یاد نہیں رکھتے تو ہمارا کیا ہوگا؟"
"یہ ناممکن ہے میں سب کچھ تم دونوں کے لیے ہی تو کر رہا ہوں"۔
وہ مطمئن نہیں تھی۔
"تم ہی تو کہتی ہو، میرا جسم میری مرضی۔ مجھے بھی ایک موقع دو، میں بھی اپنے جسم کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکوں"۔
وہ خاموش ہوگئی تھی۔
***
جوڑوں کی دکھن اور انگلیوں کی سوجن ختم ہو رہی تھی۔ سرگرانی کم ہوتی جا رہی تھی۔ جسم ہلکا پھلکا ہو کر مائل بہ پرواز تھا۔ تمام اعضا ڈھیلے ڈھالے ہو کر کام کرنے کو تڑپ رہے تھے۔ اس کے اندر سے آواز آ رہی تھی، چلو کام کرو۔ مجسمے اسے بلا رہے تھے۔ مجبوریاں جو راستے میں حائل تھیں، تکلیفیں جو کام کرنے سے روکتی تھی اور سوچ جو ڈپریشن سے محدود ہوگئی تھی، سب ختم۔
وہ اپنے کام میں مگن ہوگیا۔ وہ ہمیشہ مجسمہ تخلیق کرنے سے پہلے اس کی ڈرائنگ بناتا، سائز اور مکمل ہیئت لکیر لیتا تھا۔ اس کا سہ رخی گراف بناتا لیکن علاج کے بعد وہ اتنا ماہر ہوگیا کہ صرف خوابوں خیالوں میں ابھرنے والی شبیہ کو مجسم کر لیتا۔ اس کی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رہتی۔
اب چھینی اور ہتھوڑی اس کے ہاتھ میں یوں چلتی تھی جیسے مشین۔
وہ دیو مالائی طاقت کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک وقت میں کئی کئی شاہ پارے تیار کر لیتا۔ سارے شہر میں اس کے کام کی دھوم مچ گئی۔
مجسموں کے نقش و نگار جو دماغ میں قید تھے، قید سے رہائی پا چکے تھے۔ اس کے فن کے نمونے نمائش کو ترس رہے تھے۔
اب وقت آہستہ چلتا اور اس کا کام زیادہ تیزی سے۔ ملک کی سب سے بڑی نمائش گاہ نے اس کی مجسموں کی نمائش کا اعلان کیا تھا۔
گیلری کی مالک کمپنی کو یقین تھا کہ یہ نمائش دنیا کو ایک نئی سمت دے گی۔ بہت ایڈورٹائز کیا گیا۔ دنیا بھر مندوبین آ رہے تھے۔ اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی وہ صرف کام کر رہا تھا۔ گیلری کی مینیجر نے اسے آ کر کہا، "آپ کی بیگم کا فون ہے وہ بات کرنا چاہ رہی ہے"۔
"اسے وہی پرانا جواب بھیج دو کہ میں ابھی مصروف ہوں"۔
منیجر بولی، "میسج ہے کہ آج ہماری شادی کی سالگرہ ہے"۔
اس نے تھوڑی دیر کے لیے اپنا ہاتھ روکا اور دماغ پر زور دینا شروع کیا۔ آج کیا تاریخ ہے؟ آج ہماری شادی ہوئی تھی؟ کتنے سال پہلے کی بات ہے؟ دو، پانچ، دس یا بیس سال پہلے؟ دماغ میں سمائے نینو کمپیوٹرز نے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ پھر انہوں نے بتایا کہ یہ بات آپ کے کام کے متعلقہ نہیں۔ اس نے سر جھٹکا اور پھر سے کام شروع کر دیا۔
***
شیشوں سے سجی گیلری رنگ برنگی روشنیوں سے منور تھی۔ اس کے مجسمے قطار اندر قطار رونق افروز تھے۔ وہ ہر چیز سے بے نیاز ایک طرف کھڑا تھا۔ گیلری کی شیشوں کی دیواروں میں اس کا عکس بھی چہار سو دکھائی دے رہا تھا۔ شیشے میں اپنا عکس دیکھتا تو اپنی شکل کچھ انوکھی لگتی۔ اس کا دماغ نئے مجسموں کی تیاری میں الجھا ہوا تھا۔ ابھی کل ہی برٹش میوزیم اور لور میوزیم پیرس کے نمائندگان سے اس کی میٹنگ ہوئی تھی۔ وہ یہی مجسمے ادھر نمائش میں لے جانا چاہتے تھے لیکن اس نے کچھ وقت مانگا کہ جلد ہی وہ کچھ نئے شاہ پارے تیار کر لے گا اور ان کے ساتھ وہ بھی پیش کیے جائیں۔ کچھ لوگ اور میڈیا والے اس کے گرد موجود تھے۔ ہر نیا آنے والا بندہ اپنا تعارف کرواتے ہوئے اسے مبارک باد دیتا۔ کمپیوٹرز اسے ہر فرد کے بارے میں فوراً معلومات مہیا کر دیتے۔ جب تک وہ اس کے فن کی بات کرتے وہ غور سے سنتا، انہیں جواب بھی دیتا۔ جوں ہی کوئی اور بات ہوتی تو وہ کسی مجسمے کی طرف دیکھنے لگتا۔
وہ ایک کونے میں کچھ لوگوں سے باتیں کر رہا تھا کہ شیشوں میں ہال کے دوسرے کنارے پر کسی عورت کا عکس نظر آیا۔ سب لوگ بھاگ کر اس کے پاس چلے گئے۔ وہ گھور کر اسے دیکھتے ہوئے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر اس نے نینو کمپیوٹرز کو حکم دیا کہ اس کا ریکارڈ چیک کرو۔
جواب ملا، "دو سال پہلے اس عورت کے بارے میں آپ کے دماغ میں پیار بھرے احساسات تھے جو اب کوشش کے باوجود بھی اجاگر نہیں ہو رہے"۔
وہ اس کی طرف چل پڑا کہ شاید قریب جا کر اسے پہچان سکے۔
وہ لوگوں کے درمیان گھری نظر نہیں آ رہی تھی۔
ایک پریس والے نے اس عورت سے پوچھا، "آپ کا ان مجسموں کے بارے میں کیا خیال ہے؟"
جواب ملا، "بہت اعلی درجے کے مجسمے! یوں لگتا ہے کسی انسان نہیں دیوتاؤں نے انہیں تراشا ہے۔ اسی لیے جذبات و احساسات سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ چہرے ایسے سپاٹ جیسے شہروں کی آسمان سے چھوتی بلند و بالا عمارتوں کے در و دیوار۔ بالکل میرے خاوند کے چہرے کی طرح"۔