1. ہوم
  2. افسانہ
  3. سید محمد زاہد
  4. اردو بازار کے بزنس ٹائیکون

اردو بازار کے بزنس ٹائیکون

شام ڈھلنے لگی تو اورینٹل کالج سے باہر نکل آیا۔ چند قدم چلنے کے بعد دائیں طرف مڑ گیا۔ کالج کی دیو مالائی عمارت داہنے ہاتھ پر تھی۔ رک کر اس مادر علمی کو آخری بار دیکھا۔ اس کا نقشہ اپنی روح میں جذب کر لینا چاہتا تھا۔

تنگ سڑکوں پر گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں۔ پیدل چلنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ بچتا بچاتا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے بہت پہلے اورینٹل کالج کے طلباء کالج ہاسٹل حضوری باغ، جایا کرتے تھے۔ میرا پسندیدہ راستہ۔ قدموں کے نشان ڈھونڈتا، کسی طرف دیکھے بغیر، گردن جھکائے چلتا جا رہا تھا۔ چیٹرجی روڈ سے ہوتے ہوئے اردو بازار پہنچ گیا۔ ساری سڑکیں، بازار میرے جانے پہچانے تھے۔ پچھلے پچیس سال یہیں گھومتا رہا تھا۔ اس بازار کو علم کا گہوارہ کہتے تھے، اب سرمایہ داری کا گہوارہ ہے۔ آسمان کو چھوتی پبلشرز کی عمارتیں، ٹک ٹک چلتے پرنٹنگ پریس، کتابوں، کاپیوں اور کاغذات کے ڈھیر۔ نام اس کا اردو بازار ہے اور کام دولت کا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی مچھلی بکتی ہے۔ لاہور بسانے والوں نے اچھا جوڑ ملایا۔ انہیں پتا تھا کہ اردو بازار میں ادب نہیں آڑھتی پنپیں گے۔ شعرا، افسانہ نگار اور ناول نگاروں سے بیگار لی جائے گی۔ ادبی شہ پاروں کی بولی مچھلی کی طرح لگائی جائے گی۔ اسی لیے مچھلی کی باس پبلشرز کے جسم میں بھی سما چکی ہے۔

سرکلر روڈ پار کرکے بھاٹی گیٹ سے پرانے شہر کے اندر داخل ہوگیا۔ یہ گلیاں یہ بازار لوگوں سے اٹے نظر آتے ہیں۔ شہر کٹورا بن گیا ہے۔ وہ محلے جو علاقوں کے سرتاج تھے، بستیاں جو شہروں کی ملکہ تھیں ان کو رکشہ موٹر سائیکلوں نے ٹائروں کے نیچے روند ڈالا ہے۔ اب در و دیوار راتوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں۔ ان کے چہروں پر دھویں نے کالک مل دی ہے۔ ان کے رخساروں پر آنسوؤں کی گنگا بہتی ہے۔ اس شہر کے وہ باسی کہاں گئے جو اس کے آنسو پونچھتے تھے؟ دغا دے کر کالونیوں میں جا بسے اور شہر پر غیر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ بہت ظلم ہوا اس بلاد العروس پر، کانوں ہور تے راہک نیں ہور اس دے، خاوند ہور دم ہورناں مارنے نی۔۔

یہی سوچتے چلتا جا رہا تھا۔ ٹبی بازار، ترنم چوک، اونچا چیت رام، نیواں چیت رام روڈ، شاہی محلے کی گلیوں کو پار کرتے ہوئے چلتا جا رہا تھا۔ ادھر ویرانہ چیخ رہا تھا۔ جن گلیوں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا وہ اجڑ گئیں۔ ترنم چوک کی راہیں ماتم کناں ہیں، ان کا مقدر پھوٹ گیا۔ گرمی کی شدت، ٹوٹے پھوٹے مکان، خالی جھروکے۔ ان راہوں کی خاک عشاق کے قدموں کے بوسوں کو ترستی ہے۔ حسیناؤں کی دولت جسم ہوا میں اڑ گئی ہے۔ ان کے پھاٹک سنسان پڑے ہیں۔

دھن روپ کا ناچ، نہ دھرم پریت کا راج۔ طبلہ اور سارنگی کے بغیر شاعری سمجھ ہی نہیں آتی۔ گانے والیاں نہ رہیں تو غزل منہ موڑ گئی، نظم نے خود کو سمیٹ لیا اور گیت مرثیہ میں ڈھل گئے۔ سا رے گا ما پا، نہ تاک دن تا، ساری دنیا ہی توبہ کر گئی! میں اکیلا دوزخی ہوں گا؟

منڈی تو اجڑ گئی تھی لیکن فوڈ سٹریٹ میں لوگوں کا جمگھٹا تھا۔ بڑے بڑے ریسٹورنٹ، سرمایہ داروں کے ڈین، فلمی گانے اور کھابے ادھر سب کچھ رنگ بدل کر موجود تھا۔ دودھ جلیبی کی دکان پر پرے جمی ہوئی تھی علاقے کے سارے چھنٹے ادھر جمع تھے۔ گپیں ہانکی جا رہی تھیں۔ زمین اسمان کے قلابے ملائے جا رہے تھے۔ ایک پیالہ دودھ لے کر بیک پیک میں موجود تھرموس میں ڈلوایا۔ جیب سے اکلوتا نوٹ نکال کر ملازم کو دیا اور چل پڑا۔ بقایا وصول کرنا گوارا نہیں کیا۔

روشنائی دروازہ پار کرکے حضوری باغ پہنچ گیا۔ کالج کا دور یاد آ رہا تھا جب اس سبزہ زار میں بیٹھ کر کہانیاں، افسانے، شاعری سنا کرتا تھا۔ کہیں کوئی ہیر گا رہا ہوتا اور کہیں مشاعرہ۔ پرانے راستوں پر چلتا ہوا جانے پہچانے بنچ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ بیک پیک اتار کر اس پر رکھا اور بیٹھ گیا۔ تھرموس کے ڈھکن میں دودھ ڈال کر چسکیاں لینے لگا۔ دودھ جلیبی کی خوشبو ہریالی اور شجرگاہ کی خوشبو سے مل کر عجب سماں باندھ رہی تھی، یہ من بھاونی مہک دودھ کے ساتھ میرے دل میں اتر رہی تھی۔ دودھ خدا کا نور ہے آج کے بعد یہ نہیں ملے گا۔ میں ایک ایک گھونٹ سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔

ابھی کافی وقت باقی تھا۔ آٹھ بجے اور پھر نو۔ ایک ایک منٹ بھاری تھا۔ گھڑی کی ہر حرکت کے ساتھ دل ڈوب جاتا۔ دس بجے تک ہر آہٹ پر چونک جاتا تھا۔ ستارے اپنی گردش میں، ساعتیں محو پرواز تھیں۔ اسپان نیم شب سرپٹ دوڑ رہے تھے۔ سرسراتے پتے ان کے پاؤں کی آہٹ لگتے اور ہوا کے جھونکے گرم سانسوں کی پھڑپھڑاہٹ۔

رات ڈھلی تو مسجد کی تمام روشنیاں گل کر دی گئیں۔ نیکیوں کے دروازے بند اور رات کے اندھیرے میں روحوں کی تجارت شروع۔ اب اس کے آنے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ بے گھر، بے چارے مسجد کی سیڑھیوں، بنچوں پر لیٹ کر دن بھر کے گناہوں کا بوجھ اوڑھ کر سو گئے تھے۔

ساتھ والا بنچ خالی تھا۔ اتنے سالوں کے بعد بہت کچھ بدل گیا۔ لکڑی کا وہ بنچ جس پر ہمارے دستخط تھے کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں اٹھ کر خالی بنچ پر چلا آیا۔ اس کے اوپر ایک لیمپ روشن تھا۔ پتنگوں کی بھن بھن کے ساتھ ہی وہ آواز ابھری۔

"تم نے بنچ بدل لیا؟"

نظر اٹھا کر دیکھا تو کچھ نشہ بیچنے والے ادھر ادھر پھرتے نظر آئے۔ بے کار و بے گھر افراد گہری نیند سو رہے تھے۔ خاموشی میں اسی آواز کی گونج تھی، ہر طرف۔ لیکن ان میں سے کسی نے کچھ نہیں سنا تھا۔ پورے پارک پر سکوت مرگ طاری تھا۔

"کیا اسی پر بینچ پر بیٹھنا لازم تھا؟" میں نے خلا میں گھورتے ہوئے پوچھا۔

جواب میں کچھ قہقہے سنائی دیے وہ بھی ایسے جیسے تیز ہوا پتوں کے اندر سے گزر رہی ہو۔

کچھ نظر آ رہا تھا، نہ ہی جواب ملا۔ میں دوبارہ اسی بینچ پر بیٹھ گیا اور اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ پچھلی کئی دہائیوں کی مشکلات میں میں نے خود کو معاشرے سے علیحدہ کرنا سیکھ لیا تھا۔ جب اردو بازار میں مزدوری کے دوران تھک جاتا تو خود کو ایسے ہی سمیٹ لیتا۔ چاروں طرف کیا ہو رہا ہے؟ کچھ دھیان نہیں دیتا۔ اپنے اندر جھانکنا شروع کر دیتا یوں جیسے خطرہ دیکھ کر سمندری گھونگھا اپنا تمام جسم خول کے اندر سمیٹ لیتا ہے۔

اس حالت میں مجھے کچھ سنائی نہ دیتا سوائے اپنے دل کی دھڑکن کے۔

اس خاموشی کو اس میوزک نے توڑا جو کسی کے ہیڈ فون سے ہلکا ہلکا چھن کر آ رہا تھا۔ فون دیکھا 11:59۔ آخری دن بھی ختم ہونے والا تھا۔ یک دم سکرین پر مختلف نوٹیفکیشن آنا شروع ہو گئے جو اتنی تیزی سے گزر رہے تھے کہ آنکھیں جھپکنا بھول گئیں۔

ایک دن پہلے، دو دن پہلے، پانچ سال پہلے، مختلف تصویریں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی تھیں۔ میں ماضی کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ ماضی میرے لیے ایک خوفناک کہانی تھا۔ غصے میں فون اندھیرے میں اچھال دیا اور چلنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ اسی وقت اندھیری رات کے سناٹے سے ایک لڑکی نخرے سے چلتی ہوئی میرے سامنے آ کر کھڑا ہوگئی۔ پہلی بار اس لڑکی کو دیکھا لیکن پہچان گیا کہ یہ وہی ہے۔ پنک کلر کی ٹی شرٹ، گرے سکن ٹائٹ جینز اور صاف ستھرے سنیکرز جن پر قیمتی برینڈز کے نام فخریہ انداز سے نمایاں تھے۔ اسے سامنے پا کر میرے پاؤں زمین کے ساتھ چپک گئے۔

"میفی! میفاسٹوفلس، جدید انداز میں! " برینڈ ایمبیسڈرز کی طرح اتراتے ہوئے، اپنا آؤٹ فٹ دکھاتے ہوئے، ایڑیوں پر گھوم گئی۔

"فاسٹس! کیا تم نے میرا کتا دیکھا ہے؟ میں ادھر آنے لگی تو لوسیفر نے پکارا۔ پارک جا رہی ہو تو سربیرس کو بھی ساتھ لیتے جاؤ"۔

تین سر والا کتا اس کی ٹانگ کے ساتھ کھڑا تھا۔

میں تحت الثریٰ کے رکھوالے کتے کی طرف دیکھنے لگا۔ تین سر رکھنے کے باوجود وہ شکل سے بالکل بے وقوف لگتا تھا۔ دیوتاؤں نے کیسے جاہل کتے کو یہ اہم کام سونپا ہے؟ وہ روحوں کو باہر آنے سے کیسے روک سکتا ہے؟ اسی لیے تو یہ زمین بد روحوں سے بھری پڑی ہے۔

میں بالکل خاموش کھڑا تھا۔

اس نے آنکھیں جھپکائیں۔ اوپر نیچے والے پپوٹے اور پھر تیسرا پپوٹا بیرونی طرف سے اندر کی طرف گھمایا۔ ساری دنیا اس کی آنکھوں کے ساتھ گھوم گئی۔ درخت، عمارتیں، بینچ اور بے گھر افراد، سب غائب۔ اس نے اپنی چھوٹی انگلی میرے سینے سے لگا کر دھکا دیا۔ میں بینچ پر گر گیا۔ ہر طرف تاریکی کا راج تھا۔ اس اندھیرے میں صرف اس جادوگر کی آنکھیں روشن تھیں، سرخ آگ جیسی روشن۔

"ادھر ہی بیٹھو! میں تھوڑی دیر میں آ رہی ہوں"۔ یہ کہہ کر وہ بھاگ گئی۔

***

میفاسٹوفلس سے میری پہلی ملاقات اسی حضوری باغ میں ہی ہوئی تھی۔ اس وقت میں کالج کا طالب علم تھا۔ وہ مرد کی شکل میں آئی تھی۔ لمبا پتلا صاف گفتگو کرنے والا۔ اس کی بڑی گھنی مونچھیں تھیں۔ ایسے ہی اندھیرے سے نکل کر میرے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے قہقہے ابل رہے تھے۔ ایسی چمک تھی ان آنکھوں میں جیسے صدیوں کے تجربات اور فلسفیانہ خیالات کی آماج گاہ ہوں۔

اس کے بعد جو اگلی چیز مجھے یاد ہے، میری اور اس کی آخری ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات میں میں نے اپنی روح نہیں بیچی تھی۔ یہ فیصلہ کسی دھوکے کی بنا پر نہیں تھا۔ نہ ہی میں اس وقت کسی نشے کے زیر اثر تھا۔ مجھے یاد ہے آخری بار، آخری ملاقات میں شیطان اعظم لوسیفر کے چیلے نے اسی پارک میں، انہی راستوں پر چلتے ہوئے کہا تھا، "ایک بات سوچ سمجھ لو، یہ خالصتاً تمہارا ذاتی فیصلہ ہے۔ تم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ آج پچیس سال بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ جس آزادی سے میں نے یہ فیصلہ کیا پوری زندگی میں مجھے پھر کوئی ایسا موقع دوبارہ نہ ملا"۔

آج میں پھر اسی بینچ پر بیٹھا تھا۔ میں نے بینچ پر ہاتھ پھیرا۔ گرد و غبار کے نیچے سے لکڑی پر کھدے ہوئے میرے اور اس کے دستخط سامنے آ گئے۔ میرا خون آج بھی تازہ تھا۔ شیطان نے اپنا وعدہ نبھایا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ میں اپنی روح اس کے حوالے کردوں تاکہ وہ ابدی لعنت کا طوق میرے گلے میں ڈال کر دوزخ میں پھینک دے۔

میفی میرے سامنے کھڑی تھی۔ دستخط دیکھ کر مسکرانے لگی۔ اس کے سانس کی گرم ہوا مجھے اڑا کے پچھلی کئی دہائیوں میں لے گئی۔ بہت سے نام، بہت سی شخصیات، بہت سے لوگ، بہت سے جذبات، بہت سی کہانیاں سب میری آنکھوں کے سامنے تھیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہیں میں بھول گیا تھا لیکن اب سب کچھ میرے سامنے تھا۔ اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ میری جیب میں کچھ حرکت ہو رہی ہے۔ میں نے ہاتھ ڈال کر دیکھا تو میرا فون تھا اور جادوگرانہ حقیقت تھی کہ یہ سالم تھا۔ ابھی بھی نوٹیفکیشن آ رہے تھے۔ ان سالوں کے بھی جن میں یہ سہولت میسر ہی نہیں تھی۔ میری تمام سرگرمیاں، ہوٹلز میں، اپارٹمنٹس میں، سڑکوں پر، گھر میں، میخانے، طوائف خانے اور فلم سٹوڈیوز سب میرے سامنے تھے۔

پچیس سال، آہ! پچیس سال۔ میری کامیابی اور زوال کی داستان۔ میں نے فون دوبارہ ہوا میں اچھال دیا۔

وہ میرے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئی۔ کتے کو گود میں لے کر اس کے چھوٹے چھوٹے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

"پچیس سال پہلے تم نے کچھ مانگا تھا؟ تم علم مانگ رہے تھے، فن مانگ رہے تھے۔ تمہاری آنکھوں میں بڑے بڑے خواب بسے تھے۔ ان خوابوں کا کیا ہوا؟"

کتے کے درمیانی سر کو سہلاتے ہوئی بات جاری رکھی۔

"تم سے پہلے والے فاسٹس نے کامیابی کی جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ اب تو پڑھے لکھے لوگ بہت زیادہ ہیں۔ اب جب کہ ہم دوزخ کی طرف جا رہے ہیں تو کیا سوچ رہے ہو؟ ہمت کرو مجھے بتاؤ ان سالوں نے تم نے کیا کیا؟ اس جدید دنیا میں تمہیں بہت سے مواقع ملے ہوں گے۔ تمہاری تحریریں دنیا بھر میں چھا گئی ہوں گی"۔

گود میں بیٹھا ہوا کتا کود کر ہمارے درمیان آ گیا۔

"ناکامی ہی ناکامی"۔ میں نے اسے بتانا شروع کیا۔

سربیرس اپنی زبان سے میرا ہاتھ چاٹنے لگا۔ دوسرا منہ میفی کی گود میں تھا اور تیسرے سے وہ کچھ چبا رہا تھا۔

"اس دنیا میں علم اہم نہیں رہا یہاں صرف سرمائے کی حکومت ہے"۔ میں صرف ایک جملہ ہی بول سکا۔ مجھے خاموش پا کر وہ مجھے حوصلہ دینے لگی۔

"لوسیفر اب دوزخ میں بہت مصروف رہتا ہے۔ جدید دنیا اس کو بھی بہکا رہی ہے۔ مجھے تو وہ شیطان کم وال سٹریٹ کا بزنس ٹائیکون زیادہ لگتا ہے۔ کبھی وہ فنانس بروکر کا روپ دھار لیتا ہے۔ وہ اپنے چیلوں کو کہتا ہے یہ خیال عام کردو کہ لالچ اچھی چیز ہے۔ وال سٹریٹ: منی نیور سلیپ، فلم کا ویلن گورڈن گیکو، وہی تو تھا۔ وہ مجھے بھی کہتا ہے تم اب اپنا انداز بدل کر سرمایہ اوڑھ لو"۔ شیخی بگھارتے ہوئے وہ اپنے لباس پر لگے مونوگرامز کی طرف اشارہ کرکے خاموش ہوگئی۔

کتے کے پنجے میری ٹانگ میں چبھ رہے تھے۔ اس کے دانت یوں چمک رہے تھے جیسے جہنم کے پتھر۔ تینوں سر ہلا کر میری طرف دیکھ رہا تھا جیسے مجھ سے سوال پوچھ رہا ہو۔

"اوہ میفی! تمہیں کیا بتاؤں؟ میں کچھ زیادہ نہ کر سکا۔ بہت پہلے جب میں تمہارے ساتھ اس بینچ پر بیٹھا تھا تو میں سمجھتا تھا کہ علم کی بنیاد پر، اپنے قلم کی بنیاد پر دنیا کو فتح کر لوں گا۔ میں اپنی کہانیوں سے دنیا کو نیا رنگ دوں گا۔ میرے خواب حقیقت بن کر کاغذ پر بکھریں گے تو لوگ دیوانے ہو جائیں گے"۔

میفی مسکراتے ہوئے بولی۔

"لکھنا الہام ہوتا ہے یا وسوسہ و ذہنی خارش۔

ورود و نزول ہو یا القا و کشف، پرستار لکھاری کو پوجنے لگتے ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں مذہبی لکھاریوں کو لوگوں نے دیوتا و اوتار بنا رکھا ہے۔ ان کی کتابوں کے سامنے ماتھا ٹیکتے ہیں۔

اگر مصنف کی تحریر شیطانی خیال ہو تو یہی وسواس اسے خدائی دعویٰ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ہم شیاطین کا کام انسان خود کرتا ہے۔ تمہیں تو لوسیفر نے تمام طاقتیں ودیعت کر دی تھیں تم بھی خدا بن سکتے تھے"۔

"میفی کیا بتاؤں، یہ اعتماد ہی میرے خوابوں کو زہریلا کر گیا"۔

میں نے اپنا ہاتھ گنجے سر پر پھیرنا شروع کر دیا، "تم جاننا چاہتی ہو، تم میرے بارے میں پوچھنا چاہتی ہو۔ شروع کی کچھ کتابوں نے دنیا میں ہلچل مچا دی۔ سرمایہ دار، پبلشرز میرے آگے پیچھے بھاگنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے بہت خواب دکھائے۔ میں لکھتا گیا اور وہ بیچتے گئے۔ کتابیں بکتی تھیں، نفع نہیں ملتا تھا۔ میں کچھ ڈیمانڈ کرتا تو مجھ سے ہی رقم مانگنا شروع ہو جاتے کہ خود پبلش کرکے دیکھ لو۔ کتابوں میں نفع ہی نہیں ہے۔ میں نے تو اپنی روح تمہارے ہاتھوں بیچی تھی کہ دنیا میں میرے نام کا ڈنکا بجے۔ مجھے کیا پتہ تھا تم نے جو مجھے علم دیا ان پبلشر کے ہاتھوں میں بک جائے گا۔

اوہ میفی! کیا بتاؤں یہ ایک پیگ شراب پلا کر یا ایک سگریٹ کے بدلے مجھ سے کہانی لکھوا لیتے۔ یہ مڈل مین، یہ پبلشرز، اردو بازار کے یہ بزنس ٹائیکون، سب کھا گئے۔ آج میرے ہاتھ میں علم ہے نہ تمہارا دیا ہوا اعتماد۔ یہ جدید دور کے فنانسرز، جدید دور کے پبلشرز خدا بنے بیٹھے ہیں۔ ان کی عمارتیں دیکھو کتنی اونچی ہیں اور ہم مصنفین کی بھوک دیکھو کتنی گہری ہے۔ اس پیٹ کی جلن دیکھو، اس بھوک کی آگ دیکھو، تمہاری دوزخ کی آگ اس کے سامنے ہیچ ہوگی۔ یاد کرو میں نے پوچھا تھا کہ خدا تمہیں جہنم سے باہر کیسے آنے دیتا ہے۔ تمہارا جواب تھا کیونکہ ہمارے اندر ایک جہنم ہے، ہم اس میں ہمیشہ سڑتے رہتے ہیں۔ یہ بھوک بھی ایک جہنم ہے۔

انہوں نے مجھے معاہدوں کے جال میں پھنسا لیا۔ شیطان نے مجھ سے میری روح خریدی تھی، انہوں نے مجھ سے میرا علم خرید لیا۔ میری کتابیں میری نہ رہیں۔ بھوکا مرنے لگا تو میں نے لکھنا چھوڑ کر اردو بازار میں مزدوری کر لی۔ میری قسمت میں اب صرف دوزخ ہے"۔

سربیرس نے اپنا پنجہ میرے پیٹ میں گاڑ دیا۔ دوسرا پنجہ میرے سینے کے اوپر تھا۔ ایک منہ میرے سینے پر، دوسرا گردن پر اور تیسرے سے میرے منہ کو چاٹ رہا تھا۔ میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ صرف دیکھ رہا تھا، خوفزدہ ہو کر۔

(Doctor Faustus is a Christopher Marlowes play. Mephistopheles is the infernal spirit in that play. Cerberus is the multi-headed guard dog of Hades, the Underworld in ancient Greek mythology. The hounds task is to guard the entrance to the Underworld and keep the living separated from the dead.)