1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. سید محمد زاہد/
  4. موہنی مصلن

موہنی مصلن

کِھلی کِھلی اجلی سی سردیوں کی دھوپ میں سرسوں کے پھول لہرا کر موسم کو زرد رنگ دے گئے تھے۔ یہ لپکتا لہکتا کھیت برف پوش پہاڑوں کی یخ بستہ ہوا میں تیلئر کی ڈار کی طرح اوپر سے اوپر جاتا دکھائی دیتا تھا۔ اس نے دو پھول توڑ کر ہاتھ میں پکڑ لیے اور ایک ایک کرکے اس کی پتیوں کو سہلانے لگی جیسے سنار کی نرم و نازک انگلیاں سنہری جھمکوں کو چمکا رہی ہوں پھر انہیں اپنے کانوں میں پرو لیا۔

سرسوں کے وسیع کھیت میں گھومتے انہیں کافی دیر ہوگئی تھی۔ ایک اور پھول پکڑا اور اس کی پتیوں کو دیکھنے لگی۔ اس کائنات میں شاید ہی کسی نے اپنے محبوب کو اتنی غور سے دیکھا ہو جتنا وہ اس پھول کو دیکھ رہی تھی۔ ایک ایک پتی کو چھو رہی تھی۔ اس کی انگلیوں کے پور زردانوں سے بھر کر پیلے ہو گئے تھے۔

"تم جانتی ہو کہ اس پھول دی پتیوں دے بیچ زیریں نلی دے کنارے امرت رس ہوندا اے"۔

"کتھے؟"

مہر نواز لک نے ایک پھول پکڑا اور اس کی پیلی پتیاں ایک ایک کرکے توڑ دیں اب صرف ایک درمیانی گول نلی اور اس کے گرد کچھ باریک باریک پتلی ڈنڈیاں بچ گئیں۔

"اے پھول دا نر حصہ اے جس نے درمیانی، اوپر توں باریک اور نیچے تھوڑی موٹی بذرے دانی نوں گھیر رکھیا اے جو پھول دا مادہ حصہ اے۔ بالکل تیرے سینے، کمر اور کولہے دی بناوٹ دا۔ اس کولہے دے نال نیچے غور نال دیکھ چھوٹی چھوٹی رس بھری تھیلیاں، جسے چوسن لئی بھنورے اس پھول دے گرد منڈلاندے نیں"۔

"کیا اے مٹھا ہوندا اے؟"

ہاں! امرت رس بالکل ویسا ای جیسا تیری زبان دے نیچے موجود شہد دانیوں چوں پھوٹدا اے"۔

اس نے نظریں اٹھا کر مہر نواز لک کو دیکھا۔ پیار ہی پیار تھا۔ سرسوں کا عکس اس کی گالوں کی چمک کو عریاں کر رہا تھا۔ مہر نواز کہنے لگا۔

"اب تو میرے گھر آ ای جا"۔

"اے ممکن نئیں"۔

"اے پھل ویکھ، مادہ نلی دی حفاظت لئی نر کیسے تنے کھڑے نیں۔ میں وی تینوں اپنی حفاظت چے رکھنا چاہندا واں"۔

"میری ماں نئیں منے گی"۔

"کیوں؟"

وہ خاموش رہی۔

٭٭٭

مہر نواز لک کی دو بیویاں پہلے بھی تھیں۔ ایک خاندان سے بیاہ کر لایا تھا: وٹے سٹے کی شادی، ایسی شادیوں میں جیسے ہوتا ہے ویسے ہی ان کے تعلقات تھے کہ جسم مجبوری سے مل جاتے ہیں، ذہن نہیں ملتے۔ دوسری شادی اس نے یونیورسٹی میں اپنی کلاس فیلو کے ساتھ کی تھی۔ یہ بھی برابر کی چوٹ تھی۔ جاگیردارانہ سوچ اور پینڈو مردانگی عشق میں بھی حاکمانہ رویہ رکھتی ہے۔ سو اس سے بھی بن نہ سکی۔

دونوں کو اس کی پرواہ بھی نہیں تھی۔ پہلی بیوی تو خاندان کے جنسی رویوں سے واقف تھی۔ دوسری اس دولت جائداد دیکھ کر ریجھی تھی اور اسے مہر نواز لک سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ ادھر ادھر منہ مارنے سے روک سکتی تھی لیکن اس نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

خاندان کی روایت تھی کہ ہر مجبور عورت، خواص و کنیز سے حظ اٹھانے سے کبھی نہیں ٹلنا۔ علاقے بھر کی چھنالیں بھی کسی نہ کسی بہانے حویلی کے پھیرے لگاتی رہتی تھیں۔ مہر نواز لک تو ایسا نہیں تھا لیکن باقی بھائی دودھ کے دھلے نہیں تھے۔ ان بھائیوں کی بیگمات بھی ایسی خطاؤں کو معاف کر دیتی تھی کہ کسی لڑکی سے وقتی طور پر عشق کا ڈھونگ رچایا، بستر پر لٹایا پھر اسے بھی پھینک دیا اور گندی چادر کو بھی۔ نہ بھی کرتیں تو کیا کر سکتی تھیں؟ وہ تو خود ہر رات سیج سجا کر شوہر کی خوشی کے لیے نئی سے نئی لڑکی کو اس پر بٹھانے کو تیار رہتی تھیں۔ کیا بگڑتا تھا؟ مرد اور بستر تو چوہدرانیوں کا ہی رہتا تھا۔

مہر نواز لک کی بیگمات کو وہ خوش قسمت سمجھتی تھیں۔

جب انہیں پتا چلا کہ مہر نواز لک موہنی پر مر مٹے ہیں بھائی اترانے لگے اور دونوں بیگمات بھی خوش ہوگئیں کہ مصلن ان کی ایک جاگیر ہی تو ہے۔

موہنی مصلن بسنت رت کی طرح اس کی زندگی میں آئی تھی۔ اس کی زندگی میں لاکھوں پھول کھل گئے تھے۔ وہ ذات کی مصلن تھی لیکن اس جیسی حسین عورت زندگی بھر نہیں دیکھی تھی۔

باغ میں واقع ڈیرہ میں ایک چھوٹی سی کٹیا میں وہ اور اس کا خاندان نہ جانے کب سے رہائش پذیر تھا۔ مہر نواز لک کے خاندان کے نسل در نسل غلام۔ باپ فوت ہو چکا تھا۔

اس کی ماں بھی خوبصورت تھی لیکن موہنی تو لاجواب تھی۔ مرغیوں کے ڈربے جیسی کٹیا میں ایسا ہیرا کہاں سے آگیا! لگتا تھا کسی جاگیر دار نسل کے مرغے نے ہی ادھر اذانیں دی ہیں۔

عورت کو تو قدرت نے ویسے ہی ناپ تول کر بنایا ہے۔ سر سے پاؤں تک متوازن: گردن، سینہ، بازو کولہے، کمر پنڈلیاں رانیں سب قدرت کا شاہکار ہیں۔ شاعر و ادیب اس کی رعنائیوں کی تعریف کریں یا نہ کریں سراپا خود اپنا حسن بیان کر دیتا ہے۔ موہنی کا کسرتی جسم مشقت کا عادی تھا۔ ایسی نسل کی عورتوں کو کسی جم میں جا کر جسم بنانا نہیں پڑتا۔ اگر ایک ریشمی چادر میدے اور شہد سے گندھے ہوئے، تراشے ہوئے اس بت پر اوڑھا دی جاتی تو وہ صرف دو جگہ پر جسم سے مس کرتی، سینے اور کوہلوں پر۔ باقی چادر لہرا لہرا کر اس کے جسم کے لمس کو ترستی رہتی۔

بال تو اس قوم کی ہر عورت کو اللہ تعالیٰ نے دل کھول کر دئیے ہیں۔ ریشمی بال لاہور کے بانو بازار کے کسی بھی شیمپو سے نہیں دھلے تھے جو ان سے بازاری خوشبو آتی۔ چڑھتی جوانی سے ہی وہ گیسووں کو لانبا گھنا اور ریشمی بنانے کے لیے آملہ، ریٹھا اور کوار گندل پیس پیس کر ان میں بھرتی رہی تھی۔ انہیں کھلا چھوڑ دیتی تو آگے پیچھے ایسےجھول جاتے کہ ننگے جسم کو چھپانے کے لیے قمیض کی ضرورت ختم ہو جاتی۔ اگر کبھی جوڑا باندھ لیتی تو مہر نواز دیکھ کر کہہ اٹھتا اس کپے کی موجودگی میں تمہیں تکیے کی کوئی حاجت نہیں ہوتی ہوگی۔

کسی سپر سٹور سے خریدی گئی برانڈڈ کریموں اور غازوں کی مصنوعی چمک کی بجائے ہمیشہ کینوں کے چھلکے اور ماش چنے کے دانوں کو لیموں میں پیس کر چہرے کو چاند اور جسم کو کندن بنایا تھا۔ صبیح چہرہ کی رنگت ایسی تھی کہ جیسے ساری عمر زعفرانی دودھ سے دھویا گیا ہو۔

چمکتے رخساروں کے بیچ دو ہونٹ اس کا سب سے قیمتی سرمایہ تھے جن کی چپ چاپ کٹیلی کٹیلی مسکراہٹ کی مہک و دھک مہر نواز کے تن بدن میں آگ لگا دیتی۔

مضبوط جسم کی مالک موہنی باغات کی پگڈنڈیوں پر چوکڑیاں بھرتی تو مہر نواز اپنی قسمت پر رشک کرتا کہ عورت ہو یا گھوڑی ٹانگوں تلے ایسی اچ طراری بتانے والی ہی ہونی چاہیے۔ جتنی لطافتوں سے وہ زندگی بھر حظ اندوز ہوا تھا اس سے کہیں زیادہ وہ ایک ملاقات میں اس پر نچھاور کر دیتی۔

لیکن یہ کیا! اس مصلن نے مہر نواز لک کی شادی کی دعوت کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اس کی ماں نے نہیں ماننا۔

اس کی ماں انکار کی کیسے جرات کر سکتی تھی؟ وہ تو اس کے سامنے آتے ہی ڈر جاتی تھی۔ جب کبھی ماں بیٹی اسے باغ میں کہیں نظر آتیں تو ماں چپ چاپ غائب ہو جاتی۔ کئی مرتبہ اس کے سامنے ہی وہ موہنی کو لے کر لاہور چلا جاتا۔ مہر نواز لک نے نہ اسے کبھی کچھ بتایا اور نہ ہی اس عورت میں یہ ہمت تھی کہ جاگیردار سے سوال کر سکے۔ اعتراض وہ کر بھی کیسے سکتی تھی وہ تو نسل در نسل انہی کی غلام تھی۔

کبھی کنیزوں سے بھی کسی نے ان کی مرضی پوچھی ہے؟

اگلے دن ہی ڈیرے پہنچ کر اس نے ماں کو بلا لیا۔

وہ زمین پر اس کے سامنے بیٹھی تھی۔

جب مہر نواز لک نے اسے بتا یا کہ وہ موہنی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اس کی گردن مزید جھک گئی۔

کوئی جواب نہ پا کر کہنے لگا۔

"تیری چپ دا کی مطلب اے؟"

خاموشی مزید گہری ہوگئی۔

"میری سرکار! نالی دی اٹ چبارے چے نئیں لگدی۔

اساں توھاڈے غلام آں۔ کدھاں تہانوں اکھ چک کے نئیں تکیا۔ جدوں چاہو موہنی حاضر

پر اے ویاہ والی گل ٹھیک نئیں۔ "

(میرے آقا! نالی کی اینٹ چوبارے میں نہیں لگتی۔ ہم آپ کے غلام ہیں۔ کبھی آپ کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ جب بھی بلائیں موہنی آپ کی خدمت میں پیش کر دوں گی لیکن یہ شادی والی بات ٹھیک نہیں ہے۔)

یہ کہہ کر وہ اس کے پاؤں میں آ کر بیٹھ گئی۔

مہر نواز لک لاجواب ہوگیا تھا۔

اس کی نگاہوں کے سامنے موہنی کا سراپا گھوم گیا۔ اس کی پور پور اسے بلا رہی تھی۔ دونوں بیگمات کے رویے بھی سامنے تھے اور موہنی کا پیار کرنے کا انداز بھی جس میں مہر نواز کی شان و توقیر، غلبہ و قوت کو بڑھاوا ملتا تھا۔ موہنی کی نسوانیت اور سپردگی مہر نواز کی مردانگی کو حوصلہ بخشتتی تھی۔ وہ اپنا پن جس میں صرف اپنے محبوب کی چاہت ہو، جب آقاے دل سامنے ہو تو آنکھوں میں صرف اور صرف اس کی جھلک ہی دکھتی ہے۔ آنکھوں کے گرد موجود افشاں بھی حیران ہو ہو کر دیکھتی ہے اب ان میں کیا بس گیا ہے کہ یہ اس سے بھی بے نیاز ہوگئی ہیں۔

وہ صرف اس کی تھی اور ہر انسان اپنی ملکیت کو اپنے پاس اپنی حفاظت میں رکھنا چاہتا ہے۔ مردانگی اور ملکیت کے اسی احساس پر تو دنیا میں پہلے قتل کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ زن، زر اور زمین دنیا میں فساد کا باعث ہیں وہ غلط کہتے ہیں۔ مرد کی زندگی میں صرف ایک ہی 'ز' ہوتی ہے اور وہ زن ہے، وہ نہیں تو زر اور زمین کا کیا کرنا ہے۔

اس کا پیار اس کی میراث تھی جو اسے بلا رہا تھا۔

مہر نواز لک نے بوڑھی کو اٹھا کر اپنے پاس بٹھانے کی کوشش کی تو زمین پر ہی گر گئی۔

"نئیں سرکار، اساں اے گستاخی نئیں کر سکدے"۔

موہنی کی ماں خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزنے لگی۔

"شادی تے میں ضرور کرنی اے تے اپنی حویلی چے وی لے کے جانا اے"۔

"سرکاراں! بے جی نے ساڈیاں گتاں پٹ دینی ہیں۔ جوتے چپلاں مار مار پورے پنڈ چے گھمانا اے۔

مہرانیاں ساڈی بوٹی بوٹی کر دینی اے"۔

(آقا! بڑی ماں نے ہمارے بال مونڈھ دینے ہیں۔ جوتے چپلاں مار مار کر پورے گاؤں میں گھمانا ہے۔ بیگمات نے ہماری بوٹی بوٹی کر دینی ہے۔)

"اے ممکن نئیں۔ میں جےتھاڈے نال آں"۔

(میں تمہارے ساتھ ہوں۔)

وہ نہیں مان رہی تھی۔ مسلسل روتے جارہی تھی۔

مہر نواز لک واپس آ گیا۔

٭٭٭

وہ اپنی بات پر قائم تھا۔

موہنی بھی راضی نہیں تھی۔ اب اس کا پیار خوف میں کہیں کھو گیا تھا۔ بلانے پر آجاتی لیکن غلاموں کی طرح۔ اس کے پاؤں دباتی، اس کی پنڈلیاں سوتنے لگتی۔

پھر زندگی میں پہلی بار وہ اس کی کٹیا میں پہنچ گیا۔

جاگیردارنہ سوچ کا حامل، اڑیل ضدی، شکست تو قبول نہیں کرسکتا تھا۔ سو جاتے ہی کہنے لگا۔

"موہنی چل میرے نال۔ ویاہ ضرور ہوئے گا"۔ (نال، ساتھ)

ماں سامنے آ کر کھڑی ہوگئی۔

"سرکاراں! لے جاؤ تے ویاہ کرکے چناب چے روڑ دینا"۔

(آقا لے جائیں اور شادی کرکے چناب میں پھینک دینا۔)

"اوہ کیوں؟"

"حویلی چے جا کے وی مرنا ای اے"۔

"اسیں اوتھے ای جاواں گے۔ میں ویکھاں گا کون ماردا اے؟"

(ہم ادھر ہی جائیں گے۔ میں دیکھوں گا کس میں اتنی ہمت ہے کہ اسے مارے۔)

موہنی بھی سامنے آ کر کھڑی ہوگئی۔

"میں فیر وی ویاہ نئیں کرنا۔ انج جدھر کہو چل پاں گی"۔

(میں نے پھر بھی شادی نہیں کرنی۔ ویسے جدھر کہو چلی جاؤں گی"۔

مہر نواز لک ان کی جرات دیکھ کر پریشان ہوگیا۔

"کیوں؟ ڈر گئی ایں؟"

"مصلی آں۔ موت تو نئیں ڈردے۔ اساں تے سرداراں تے قربان ہونا فخر جاندے آں"۔

(ہم مصلی ہیں، موت سے نہیں ڈرتے۔ آقا پر قربان ہونے کو ہم فخر سمجھتے ہیں۔)

وہ بولتے بولتے رک گئی۔

"فیر؟ تو کی کہنا چاہندی اے؟"

(پھر کیا بات ہے؟ تم کیا کہنا چاہتی ہو۔)

موہنی تو خاموش ہوگئی۔ اس کی ماں بولی۔

"مہر نواز سوچ لے؟ دنیا بڑی ظالم اے۔ اے عشق دا بخار اتر گیا تے توں وی اوہدے سامنے جھک جانا اے"۔ (اوہدے، اس کے)

مہر نواز اپنا نام سن کر اور اس کا انداز دیکھ کر رک گیا۔ اس نے موہنی کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

"آزمانا چاہندی ایں؟"

"مہر صاب! اے کدی نئیں ہویا تے کدی ہو وی نیئں سکدا۔ جے تیرے چے دنیا نال ٹکران دی ہمت اے تے بارات لے کے آ، ویاہ کے لے جا۔ فیر ویکھیں اے مصلن تے اودھی دھی ساری دنیا نال کیویں ٹکراندی اے"۔

مہر صاحب! ایسا کبھی نہیں ہوا اور کبھی ہو بھی نہیں سکتا۔ اگر تم میں دنیا سے ٹکرانے کی ہمت ہے تو بارات لے کر آ، بیاہ کر، لے جا۔ پھر دیکھنا یہ مصلن اور اس کی بیٹی ساری دنیا سے کیسے ٹکراتی ہے؟)

٭٭٭

"کون ساتھ جائے گا؟ تیری مت ماری گئی اے۔ مہر خاندان دے وڈیرے تے عزت دار عورتاں اس مصلن دے گھر، او وی بارات لے کے؟"

(کون ساتھ جائے گا؟ تیری تو عقل ماری گئی ہے۔ مہر خاندان کے بزرگ اور عزت دار عورتیں، اس مصلن کے گھر اور وہ بھی بارات لے کر؟)

بے جی بھڑک اٹھیں۔ صاف انکار کر دیا۔ وڈیرے کی بیٹی اور کھری پنجابن، اولاد کے گناہ تو اس کا سر اونچا کرتے تھے لیکن کسی مزارع یا کامے کی نسل کی عورت سے شادی اسے قبول نہیں تھی۔

بڑی بیگم نے بھی ماں بیٹے کی گفتگو سن لی تھی۔

وہ ساس کو کہنے لگی، "بے جی توں کیوں منع کر رہی ایں؟ تیری تو بہوواں چے اضافہ ہو ریا اے۔ لوگ کہن گے کیا مرد بچہ پیدا کیتا سی!

ماں کرنے دے اسے ویاہ۔ ساڈے گھر چے کئی نوکرانیاں نئیں ایک ہور دا اضافہ ہو جائے گا۔ بس اے دس دے اس دو ٹکے دی مہترانی کے پاس جاتا ہے تو فیر اے گندہ منہ لے کے کدی میرے کول نہ آئے"۔

(دس دے، بتا دے۔ فیر، پھر۔ کدی، کبھی۔ میرے کول، میرے پاس۔)

دوسری بھی ادھر ہی تھی کہنے لگی، "ہن مصلن ساڈی ساجھے دار بنے گی۔ اے مصلناں تے فقیراں دے ڈیرے چے لگا اوہ نلکا نئیں جس توں جس دا دل چاہے پیاس بھجا لے"۔

مہر رب نواز غصے سے بھڑک اٹھا۔

"میں ویاہ وی کراں گا تے بارات وی لازمی جائے گی"۔ (تے، اور۔ وی، بھی)

مہر نواز یہ کہہ کر لوٹ آیا۔۔

٭٭٭

بڑے کرو فر اور تام جھام کے ساتھ شادیانے بجاتی، آتش بازیاں لٹاتی برات چل پڑی تو اس کے ساتھ مہر نواز لک کا کوئی دوست رشتہ دار نہیں تھا۔ گاؤں کی عورتیں چلمنوں سے جھانک رہی تھیں اور مرد دور کھیتوں میں کھڑے چوری چھپے دیکھ رہے۔ لونڈوں نگوڑوں اور مانگتوں کا ٹھٹ کا ٹھٹ تھا۔ گایک اور تنت کار ناچتے گاتے ساتھ چل رہے تھے۔ کھسرے مراثی بھانڈ بھکتیوں کا ہجوم مبارک مبارک کی دھوم مچا رہا تھا۔ طبلے، سارنگی، منجیرا، پکھاوج، ڈھول، ڈھمڈمی، بانسری و شہنائی کی گمک آسمان تک پہنچی تو گنبدچرخ سارا دھمک اٹھا۔ کنچنیوں اور نرت کاروں نے سارے مہر خاندان کے دل پاؤں تلے روند ڈالے۔

آتش بازی کی پھوار تھی اور نوٹوں کی برسات، سڑکیں، کچے راستے اور کھیت روپوں سے لد گئے۔ لوٹنے والوں نے گندم اور سرسوں کھلیان کر دی۔ اتنی دولت لٹائی گئی کہ فقیر غنی ہو گئے۔ یہاں سے وہاں تک لوگ ہی لوگ تھے۔

اس گاؤں سے کبھی کوئی بارات اتنے شور و غل کے ساتھ نہیں نکلی تھی۔

٭٭٭

شادی کے بعد مہر نواز لک نے اپنی علیحدہ حویلی بنا لی۔ پھر کبھی یار دوستوں کے پاس بیٹھا نہ کسی شادی میں شرکت کی۔ اس کی دنیا موہنی تھی۔ اس کا سب کچھ اس حسین و جمیل، باوقار، حوصلہ مند موہنی میں سمٹ کر رہ گیا تھا۔ کبھی خود کو اس سے جدا نہ کرتا۔ بس ہر جمعرات موہنی کو اس کی ماں کی کٹیا میں بھیج دیتا۔ رات اس کی یاد میں جاگ کر گذارتا۔ جمعہ کو غسل کرتا، نئے کپڑے پہنتا: مسجد جانا بھی چھوڑ دیا تھا، گھر میں ہی نماز پڑھتا اور اسی طرح ڈھول باشے بجاتا، دولت لٹاتا بارات لے کر اس کی کٹیا میں پہنچ جاتا۔