احتجاج، حق بھی ہے اور جمہوری معاشروں کی پہچان بھی مگر یہ اسی وقت خیر و برکت لاتا ہے جب اس کی بنیاد نظم، دلیل اور اجتماعی ذمہ داری پر ہو۔ اگر یہی احتجاج توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی اور انتشار میں بدل جائے تو نہ صرف اس کا نتیجہ الٹا نکلتا ہے بلکہ پوری قوم کو معاشی نقصان اور عدم استحکام کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ یہی بنیادی پیغام ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹینینٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے آزاد جموں و کشمیر کی مختلف جامعات کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے نہایت سادہ مگر پراثر انداز میں پیش کیا۔
انہوں نے یاد دلایا کہ آزاد کشمیر میں ایک فعال سیاسی نظام موجود ہے جو تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے میدان میں تسلی بخش کارکردگی دکھا رہا ہے۔ یہ امر بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستی ادارے ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم انہوں نے بجا طور پر توجہ دلائی کہ اگر ریاست ٹیکس جمع نہ کرے تو اپنے شہریوں کو مراعات اور تنخواہیں کیسے فراہم کرے؟ آزاد کشمیر میں چونکہ 30 فیصد سے زائد آبادی سرکاری ملازمتوں سے وابستہ ہے، اس لیے عوامی سطح پر ریاستی ذمہ داریوں کا احساس لازم ہے۔ یہی وہ بنیادی سماجی معاہدہ ہے جس پر کسی بھی نظام کی پائیداری کا انحصار ہوتا ہے۔
اسی تناظر میں انہوں نے احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا کہ جب احتجاج، قانون شکنی اور املاک کی تباہی میں بدل جائے تو معیشت زخمی ہوتی ہے، سرمایہ کار بددل ہوتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن حقوق کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے وہی ماند پڑ جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، احتجاج اگر اصلاح کی نیت سے ہو تو قوت بنتا ہے، لیکن اگر انتشار کی صورت اختیار کر لے تو زخم۔
یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ کشمیر کی سیاسی ساخت میں نہ صرف مقامی شہری بلکہ وہ مہاجرین بھی شامل ہیں جنہوں نے ظلم و جبر کے باعث اپنے آبائی گھربار چھوڑے۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں انہی مہاجرین کے لیے مختص 12 نشستیں اس اجتماعی شعور اور قومی یکجہتی کا مظہر ہیں جس نے قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک کشمیریوں کے مقدمے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ نشستیں محض علامتی نمائندگی نہیں، بلکہ ایک تاریخی، قانونی اور سیاسی عہد ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ کشمیریوں کی جدوجہد صرف سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ ایوانوں تک گونجتی ہے۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مہاجرین کو نمائندگی دینا اس اصول کا تسلسل ہے کہ جو قومیں ظلم سہہ کر ہجرت کرتی ہیں، وہ دراصل اپنی شناخت کی حفاظت کے لیے قربانی دیتی ہیں۔ لہٰذا انہیں سیاسی آواز کا حق دینا انصاف بھی ہے اور حکمتِ عملی بھی۔ کیونکہ اگر انہیں اسمبلی میں نشستیں نہ دی جائیں تو ان کے مسائل اور مطالبات ایوان تک کیسے پہنچیں؟ ان 12 نشستوں کے ذریعے مہاجر نمائندے بجٹ، ترقیاتی منصوبوں اور روزگار کے کوٹوں میں براہ راست اپنا حصہ ڈالتے ہیں یوں احتجاج اور جدوجہد کے بجائے مکالمہ اور قانون سازی کے راستے کھلتے ہیں۔ یہی وہ مثبت سیاسی انفراسٹرکچر ہے جس کی جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے خطاب میں اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کشمیر کو بے پناہ قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے اور صرف یہ نہیں بلکہ پاکستان کا خواب دیکھنے والے بزرگ بھی اسی خطے سے تعلق رکھتے تھے۔ پاک فوج میں آج بھی سینکڑوں افسران اور جوان کشمیری ہیں جو اس عزم کا زندہ ثبوت ہیں کہ "کشمیر بنے گا پاکستان" کوئی نعرہ نہیں بلکہ ایک تاریخی مقدر ہے۔
تاہم اس مقدر تک پہنچنے کے لیے انتشار نہیں، استقامت درکار ہے۔ احتجاج ضرور کریں لیکن اداروں کو کمزور نہ کریں۔ آواز ضرور اٹھائیں مگر قومی سلامتی اور معاشی استحکام کی ریڑھ کی ہڈی کو مجروح نہ کریں۔ کیونکہ جب معیشت کمزور ہوتی ہے تو سب سے پہلے کمزور طبقات ہی متاثر ہوتے ہیں۔ روزگار کے مواقع سکڑ جاتے ہیں، تعلیم اور صحت کے منصوبے تعطل کا شکار ہوتے ہیں اور نتیجے میں وہی نوجوان جو آج احتجاج کرتے ہیں کل پشیمانی کا شکار ہوتے ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اور عوام کے مابین مکالمے کو مضبوط کیا جائے۔ نوجوانوں میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ تبدیلی کے راستے صرف سڑکوں پر نہیں، ایوانوں میں بھی کھلتے ہیں مگر اس کے لیے ووٹ، دلیل اور بصیرت چاہیے نہ کہ پتھر، لاٹھی اور نعرے۔ ساتھ ہی یہ احساس بھی موجود رہے کہ مہاجرین کی مخصوص نشستوں جیسے انتظام دراصل اجتماعی شناخت کی حفاظت کے ہتھیار ہیں جو دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ کشمیری جہاں بھی ہوں، وہ ایک ہیں، ان کی آواز پارلیمانوں میں بھی گونجتی ہے، احتجاجی نعروں میں بھی اور سرحدوں پر کھڑے جوانوں کے حوصلے میں بھی۔
اختتاماً یہ کہا جا سکتا ہے کہ احتجاج اگر ذمہ دارانہ ہو تو وہ قوموں کو جگاتا ہے، لیکن اگر انتشار میں بدل جائے تو خوابوں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ ہمیں بطور قوم یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نعرے لگانے والے بننا چاہتے ہیں یا تاریخ بنانے والے اور تاریخ ہمیشہ انہی کے حصے میں آتی ہے جو جذبات کے ساتھ ساتھ حکمت کو بھی اپناتے ہیں۔
کشمیر کا مستقبل روشن ہے لیکن شرط یہ ہے کہ احتجاج ہو، مگر امن کے ساتھ، اختلاف ہو، مگر اداروں کے احترام کے ساتھ اور خواب ہو، مگر منصوبہ بندی کے ساتھ۔ تبھی "کشمیر بنے گا پاکستان" صرف نعرہ نہیں، بلکہ ناقابلِ تردید حقیقت بن کر ابھرے گا۔