1. ہوم
  2. کالمز
  3. فرحت عباس شاہ
  4. پی آئی اے کی نجکاری، قومی اعتماد کا امتحان

پی آئی اے کی نجکاری، قومی اعتماد کا امتحان

پاکستان میں نجکاری کا تصور ہمیشہ سے محض ایک معاشی پالیسی نہیں رہا بلکہ یہ ایک نظریاتی، سیاسی اور سماجی بحث کی علامت بھی رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں سرکاری اداروں کی نجکاری اب ایک معمول کی انتظامی حکمتِ عملی سمجھی جاتی ہے، جہاں ریاست اپنے کردار کو پالیسی ساز اور نگران تک محدود کرکے کاروباری ذمہ داریاں نجی شعبے کے سپرد کر دیتی ہے۔ مگر پاکستان میں معاملہ مختلف رہا ہے۔ یہاں ہر نجکاری قومی خودمختاری، وسائل پر کنٹرول، روزگار کے تحفظ اور طبقاتی تقسیم جیسے سوالات کو جنم دیتی ہے۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کی حالیہ کوشش اسی پیچیدہ پس منظر میں سامنے آئی ہے۔ پی آئی اے صرف ایک ایئرلائن نہیں بلکہ پاکستان کی شناخت، تاریخ اور اجتماعی یادداشت کا حصہ رہی ہے۔ ایک ایسا ادارہ جس نے مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کی کئی ایئرلائنز کی بنیاد رکھنے میں تکنیکی کردار ادا کیا، آج خساروں، بدانتظامی، سیاسی مداخلت اور مالی بوجھ کی علامت بن چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نجکاری کی بات برسوں سے کی جا رہی تھی، مگر ہر بار یا تو سیاسی مزاحمت آڑے آتی رہی یا پھر سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی رکاوٹ بنتی رہی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ عالمی سطح پر نجکاری پر اب زیادہ بحث نہیں ہوتی، مگر پاکستان میں بائیں بازو کی باقی رہ جانے والی چند آوازیں اب بھی اس کے خلاف سنائی دیتی ہیں۔ یہ آوازیں اگرچہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں، لیکن جب بھی اپوزیشن سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں تقویت دیتی ہے تو یہ ایک وقتی مگر لاؤڈ احتجاج میں بدل جاتی ہیں۔ پی آئی اے کے معاملے میں بھی یہی منظرنامہ دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔

ابتدا میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ کسی بھی بڑی غیر ملکی ایئرلائن یا عالمی سرمایہ کار نے پی آئی اے میں سرمایہ کاری سے انکار کر دیا ہے۔ اس انکار کو کئی حلقوں نے پاکستان کی معیشت پر عدم اعتماد کے طور پر دیکھا۔ مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اکثر ایسے اداروں میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں جہاں ماضی کے نقصانات، قانونی پیچیدگیاں اور سیاسی خطرات موجود ہوں۔ پی آئی اے ان تمام عوامل کی حامل تھی۔ ایسے میں منظرنامہ اس وقت تبدیل ہوا جب پاکستانی نجی شعبہ آگے آیا۔

رئیل اسٹیٹ، سیمنٹ انڈسٹری، بروکریج ہاؤسز اور تعلیمی شعبے سے وابستہ کمپنیوں نے پی آئی اے میں دلچسپی ظاہر کی۔ یہ محض کاروباری پیشکشیں نہیں تھیں بلکہ ایک قومی اعتماد کا اظہار بھی تھیں۔ یہ پہلی بار تھا کہ پاکستان کے اپنے سرمایہ کاروں نے اتنے بڑے قومی ادارے کو سنبھالنے کا حوصلہ دکھایا۔ بڈنگ کے عمل میں جو شفافیت نظر آئی، وہ خود ایک غیر معمولی پیش رفت تھی۔ دو بڑے کنسورشیمز۔۔ لکی گروپ اور عارف حبیب گروپ۔۔ میدان میں آمنے سامنے آئے۔ منگل کے روز بولیاں کھولنے کی تقریب میں سب سے پہلے لکی گروپ کی 101.5 ارب روپے کی بولی سامنے آئی۔

ایئر بلیو نے 26.5 ارب روپے کی پیشکش کی، جبکہ عارف حبیب گروپ اور اس کی ساتھی کمپنیوں کی ابتدائی بولی 115 ارب روپے تھی۔ تاہم اصل مقابلہ اوپن بڈنگ کے مرحلے میں ہوا، جہاں عارف حبیب کنسورشیم نے 135 ارب روپے کی حتمی پیشکش کے ساتھ بازی جیت لی۔ یہ لمحہ محض ایک کاروباری کامیابی نہیں تھا بلکہ پاکستان کی سرمایہ دارانہ صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ تھا۔ دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ پاکستانی سرمایہ کار نہ صرف بڑے اثاثے خریدنے کی سکت رکھتے ہیں بلکہ وہ قومی سطح کے اداروں کو سنبھالنے کا اعتماد بھی رکھتے ہیں۔ یہ اس تاثر کی نفی تھی کہ پاکستان کا نجی شعبہ صرف قلیل مدتی منافع کے لیے کام کرتا ہے۔

عارف حبیب کنسورشیم کے چیئرمین نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں جس اعتماد اور ذمہ داری کے احساس کا اظہار کیا، اس نے کئی شکوک کو کم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کو محض ایک منافع بخش ادارہ نہیں بلکہ ایک قومی ذمہ داری کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اگر یہ وعدے عملی شکل اختیار کرتے ہیں تو یہ نجکاری کے تصور کو پاکستان میں ایک نئی ساکھ دے سکتے ہیں۔ مبصرین کا یہ کہنا بجا ہے کہ شفاف بڈنگ کے عمل اور پاکستانی سرمایہ کاروں کی کامیابی نے عام اور خاص دونوں سطحوں پر اطمینان پیدا کیا ہے۔ کم از کم یہ احساس ضرور پیدا ہوا ہے کہ "گھر کے اثاثے گھر میں ہی رہیں"۔

یہ جملہ محض جذباتی نعرہ نہیں بلکہ ایک گہری نفسیاتی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نوآبادیاتی تاریخ اور معاشی انحصار کی یادیں اب بھی زندہ ہیں، قومی اثاثوں کا مقامی ہاتھوں میں رہنا ایک علامتی اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم اس تمام تر خوش فہمی کے باوجود چند بنیادی سوالات اب بھی جواب طلب ہیں۔ کیا نجکاری واقعی پی آئی اے کے مسائل کا حل ہے یا یہ محض ریاستی ناکامی کا اعتراف؟ کیا نئے مالکان سیاسی دباؤ سے آزاد ہو کر پیشہ ورانہ بنیادوں پر فیصلے کر سکیں گے؟

کیا ملازمین کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوگا؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا پی آئی اے دوبارہ وہ مقام حاصل کر سکے گی جو کبھی اس کی پہچان تھی۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ نجکاری بذاتِ خود کوئی جادوئی حل نہیں۔ اگر ادارہ جاتی اصلاحات، شفاف گورننس اور احتساب کا نظام قائم نہ ہو تو نجکاری بھی ناکام ہو سکتی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں کی گئی کئی نجکاریاں اس کی مثال ہیں جہاں ادارے تو فروخت ہو گئے مگر عوامی مفاد قربان ہوا۔

پی آئی اے کی نجکاری کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ بولی جیتنا ایک مرحلہ تھا، ادارے کو بحال کرنا ایک طویل اور صبر آزما عمل ہوگا۔ اگر عارف حبیب کنسورشیم واقعی پیشہ ورانہ مہارت، جدید مینجمنٹ اور طویل مدتی وژن کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو یہ ماڈل دیگر سرکاری اداروں کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے۔ ریاست کا کردار اب بھی کلیدی ہے۔ حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ریگولیٹری فریم ورک مضبوط ہو، اجارہ داری نہ بنے اور قومی مفاد ہر حال میں مقدم رہے۔

نجکاری کا مطلب یہ نہیں کہ ریاست مکمل طور پر دستبردار ہو جائے، بلکہ یہ کہ وہ نگران اور ضامن کے طور پر اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کرے۔ یہ ایک عبوری مرحلہ ہے، ایک تجربہ، ایک موقع۔ اگر یہ موقع دانشمندی سے استعمال ہوا تو یہ پاکستان کے معاشی بیانیے میں ایک مثبت موڑ ثابت ہو سکتا ہے اور اگر نہیں، تو یہ ایک اور سبق ہوگا جس کی قیمت قوم کو چکانا پڑے گی۔ فی الحال، اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی سرمایہ کاروں کا آگے آنا ایک حوصلہ افزا علامت ہے۔ یہ اس اعتماد کی جھلک ہے جو شاید آہستہ آہستہ اس ملک کے اپنے مستقبل پر بحال ہو رہا ہے۔