1. ہوم
  2. کالمز
  3. فرحت عباس شاہ
  4. شاہد کمال کے منتخب اشعار کی ادراکی تفہیم

شاہد کمال کے منتخب اشعار کی ادراکی تفہیم

پروفیسر شاہد کمال کراچی کے ممتاز شاعر، محقق، دانشور اور ترقی پسند ادبی روایات کے عظیم پاسدار ہیں جن کا نام اردو ادب کے افق پر ایک درخشندہ ستارے کی مانند ثبت ہے۔ 1961ء میں کراچی میں آنکھ کھولنے والی اس عہد آفریں شخصیت نے 35 برس تک تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے علم کی شمع کو فروزاں رکھا۔

1985ء سے شعر و ادب کی دنیا میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑنے والے پروفیسر شاہد کمال نے شاعری، تنقید، تحقیق اور علم السان جیسے متنوع میدانوں میں یکساں مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ "رسم تکلم" اور "مجھے اک بات کہنی ہے" جیسی شاعری کے شاہکار، "کراچی میں اردو غزل و نظم" اور "میان من و تو" جیسی تحقیقی و تنقیدی معرکۃ الآراء کتب، نیز "جہاں قواعد و انشاء" جیسی گرائمر کی گراں قدر تصنیف ان کی جامع الکمالات علمی شخصیت کی شاہد ہیں۔

انڈیا سے شائع ہونے والی ان کی تصانیف بین الاقوامی سطح پر ان کی پذیرائی کی گواہ ہیں جبکہ "لغت جدید" جیسے عظیم علمی منصوبے پر کام ان کی علم نوازی کی دلیل ہے۔ متعدد ایم فل مقالہ جات کی نگرانی اور دس سال سے زائد عرصہ پرنسپل کے عہدے پر فائز رہ کر انہوں نے علمی و انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ پروفیسر شاہد کمال اردو ادب کی وہ روشن کرن ہیں جن کا تخلیقی و فکری سرمایہ نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

درج ذیل میں ان کے خدا کے موضوع پر تخلیق کیے گئے اشعار کی ادراکی تحلیل پیش خدمت ہے۔

انتخاب

دعائیہ۔۔ نظم، ص، نمبر22

۔۔

اور بڑھ جاتا ہے اس دم غم بے حیثیت

جب کوئی مجھ سے کہے تجھ

میں خدا رھتا ہے

ص۔ نمبر، 24

۔۔

یہ میں ھوں جو تجھے دیر و حرم میں ڈھونڈتا ھوں
یہ تو ہے جو مرے دل کے قریں بیٹھا ھوا ہے

ص۔ نمبر 38

۔۔

آپ اپنے دیکھنے کیلئے نقش کائنات
خود ہی بنایا خود ہی مٹایا یہ کیا کیا

ص۔ نمبر 44

۔۔

سمٹ آتی ہے کاسے میں خدائی
فقیری میں یہ سلطانی بہت ہے

ص۔ نمبر 54

۔۔

مریض غم کو قسمت کے حوالے کرکے کہتے ھیں
مرض جانے، شفا جانے، دعا جانے، خدا جانے

ص۔ نمبر 58

۔۔

الہی خیر ھو حسن طلب کی
نظر سے پھر نظر ٹکرا رہی ہے

ص۔ نمبر 70

۔۔

میں جب بھی آئینے میں خود کو دیکھتا ھوں کمال
تو جی کرے ہے ترا احترام کرنے کو

ص۔ نمبر 72

۔۔

میں جدھر جدھر گیا ھوں ترا عکس سامنے تھا
مجھے تھام لینے والے ترا نام ہی خدا ہے

ص۔ نمبر 73

۔۔

جہاں پر ہے تو میری منزل وہی ہے
جہاں پر ھوں میں رھتا ہے تو وھیں پر

ص۔ نمبر 116

۔۔

بنا بنا کے مجھے خود ہی توڑتا ہے کمال
یہ اسکا ذوق ہنر ہے مرا مقدر ہے

ص۔ نمبر 130

۔۔

شاہد کمال کے شعری مجموعے "مجھے اک بات کہنی ہے" کے منتخب اشعار پر ادراکی تنقیدی تھیوری کی روشنی میں تفہیم پیش کرتے ہوئے، ہم ان کی شاعری میں پنہاں انسانی ذہن کے پیچیدہ عملیات، عقیدتی کشمکش اور وجودی سوالات کی جہت نمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادراکی تنقید کا محور، تخلق کار کے تہذیبی سیاق و سباق، قاری کے ذہنی عمل اور شعر کے درمیان ربط کو جانچنا ہے، جہاں شاعر کے الفاظ قاری کے ذہن میں تصورات، جذبات اور عقائد کے درمیان پیدا ہونے والے تعلق کو متحرک کرتے ہیں۔ شاہد کمال کے ہاں یہ عمل انتہائی گہرائی اور کثیرالابعادی انداز میں پیش ہوا ہے۔

صفحہ 24 پر درج شعر

اور بڑھ جاتا ہے اس دم غم بے حیثیت،
جب کوئی مجھ سے کہے تجھ میں خدا رہتا ہے

میں ادراکی تضاد کی کیفیت نمایاں ہے۔ یہاں خارجی بیان (تجھ میں خدا رہتا ہے) اور داخلی احساس (غم بے حیثیت) کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ شاعر کے لیے یہ دعویٰ غم کا باعث بن جاتا ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کی محدود ذات میں لا محدود کی موجودگی کا اعلان اس کے اپنے وجودی اضطراب کو کیسے بڑھا دیتا ہے۔ قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ اضطراب خودشناسی کے عمل کا حصہ ہے یا پھر انسانی عجز کا اقرار؟ شاہد کمال کے ہاں یہ دونوں پہلو ملتے ہیں، جس سے ان کی شاعری میں انسانی خودشناسی کا وہ عمل عکس بند ہوتا ہے جو ادراکی تنقید کا مرکز ہے۔

صفحہ 38 پر

یہ میں ہوں جو تجھے دیر و حرم میں ڈھونڈتا ہوں
یہ تو ہے جو مرے دل کے قریں بیٹھا ہوا ہے

اس شعر میں شاعر نے ظاہری مذہبی رسوم اور باطنی روحانی تجربے کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے۔ پہلا مصرعہ بیرونی تلاش کی نمائندگی کرتا ہے، جو عمارتوں اور رسمی حدود تک محدود ہے، جب کہ دوسرا مصرعہ ایک ادراکی انقلاب پیش کرتا ہے: حقیقت تو دل کے قریب موجود ہے۔ یہ شعر قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا ہماری روحانی تلاش دراصل خود سے دوری کی علامت ہے؟ اس طرح شاعر ایک ایسے ادراکی سفر کی نشاندہی کرتا ہے جو خارج سے باطن کی طرف منتقل ہوتا ہے۔

صفحہ 44 کا شعر

آپ اپنے دیکھنے کے لیے نقش کائنات
خود ہی بنایا خود ہی مٹایا یہ کیا کیا

خدا یا نظام فطرت کی تخلیقی اور تخریبی دونوں صلاحیتوں کو یکجا کرتا ہے۔ "نقش کائنات" کی تعمیر اور تخریب جہاں پورے نظام کی بنیادی ڈیزائن کی طرف اشارہ ہے بلکہ انسان کے اپنے ادراکی عمل کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ ہم اپنی دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق تشکیل دیتے ہیں، پھر اسے نئے سرے سے تعمیر کرتے ہیں۔ یہ عمل مسلسل ہے اور شاعر کے ہاں یہی انسان کا مقدر بن جاتا ہے۔ قاری کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا یہ خود آگہی کی تکمیل ہے یا پھر ایک دائمی آزمائش؟

صفحہ 54 پر

مریضِ غم کو قسمت کے حوالے کرکے کہتے ہیں
مرض جانے، شفا جانے، دعا جانے، خدا جانے

میں انسان کی بے بسی اور مجبوری کا اظہار ہے۔ یہاں "قسمت کے حوالے" کرنا دراصل ایک ادراکی ہتھیار ہے جس کے ذریعے انسان اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی چاروں مصرعے (مرض، شفا، دعا، خدا) عدم یقین کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ شاعر یہ بتاتا ہے کہ جب انسانی عقل اپنی حدوں کو چھو لے تو پھر وہ مجبوراً تقدیر کے رحم و کرم پر چلا جاتا ہے۔ یہ شعر قاری کو اس سوچ پر مجبور کرتا ہے کہ کیا تقدیر پر ایمان دراصل عقل کی شکست ہے؟

صفحہ 70 پر

الہی خیر ہو حسن طلب کی
نظر سے پھر نظر ٹکرا رہی ہے

اس میں روحانی تلاش کے دوران پیش آنے والے ادراکی تصادم کا اظہار ہے۔ "نظر سے نظر ٹکرانا" سے ظاہری اور فوری مراد تو نظریں یا آنکھیں لڑ جانا اور عشق ہو جانا ہے لیکن دراصل یہ مختلف سطحوں پر چلنے والے مشاہدے اور دریافت کے درمیان ٹکراؤ کی علامت بھی ہے۔ شاعر دعا کرتا ہے کہ حسن طلب (تلاش کا جمال) خیریت سے گزرے، مگر ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ راستہ ہموار نہیں ہے۔ شعر قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا حقیقت کی تلاش میں ٹکراؤ ناگزیر ہے؟

صفحہ 72 کا شعر

میں جب بھی آئینے میں خود کو دیکھتا ہوں کمال
تو جی کرے ہے ترا احترام کرنے کو

یہ شعر بہت واضح انداز میں خودی اور خدا کے درمیان ادراکی رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھنا دراصل خودشناسی کا عمل ہے، لیکن شاعر کو اس عمل کے نتیجے میں خدا کی تعظیم کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ خودشناسی اور خداشناسی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ شاعر کے نزدیک اپنی ذات کو پہچاننا خدا کو پہچاننے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

صفحہ 73 پر

میں جدھر جدھر گیا ہوں ترا عکس سامنے تھا
مجھے تھام لینے والے ترا نام ہی خدا ہے

میں شاعر نے خدا کی ہر جگہ موجودگی کے تصور کو پیش کیا ہے۔ "ترا عکس" ہر سمت نظر آنا دراصل شاعر کے ذہن میں خدا کے تصور کی ہمہ گیری کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں خدا کو "تھام لینے والا" کہہ کر شاعر ایک ایسی ہستی کا اظہار کرتا ہے جو نہ صرف موجود ہے بلکہ انسان کی گرفت میں آنے والی اور مددگار ہے۔ یہ شعر قاری کے ذہن میں خدا کے تصور کو مجسم کر دیتا ہے۔

صفحہ 116 پر

جہاں ہے تو میری منزل وہی ہے
جہاں میں ہوں تو رہتا ہے وہیں پر

میں شاعر نے منزل اور مقام کے درمیان فرق مٹا دیا ہے۔ پہلے مصرعے میں منزل خدا کی موجودگی میں تلاش کی جاتی ہے، جب کہ دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ جہاں وہ موجود ہے وہیں خدا بھی ہے۔ یہ شعر ادراکی تنقید کے نقطہ نظر سے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان اپنی منزل کو دور تلاش کرتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے اپنے وجود میں پنہاں ہے۔

صفحہ 130 پر

بنا بنا کے مجھے خود ہی توڑتا ہے کمال
یہ اسکا ذوق ہنر ہے مرا مقدر ہے

میں شاعر نے خالق اور مخلوق کے درمیان ایک خاص قسم کے رشتے کو پیش کیا ہے۔ "بنانا اور توڑنا" دراصل تخلیق اور تخریب کے مسلسل عمل کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعر اسے خالق کا "ذوق ہنر" قرار دیتا ہے اور اپنی جانب سے اسے "مقدر" تسلیم کر لیتا ہے۔ یہ شعر قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا انسان کی تکمیل اسی تخلیق و تخریب کے عمل سے گزر کر ممکن ہے؟

شاہد کمال کی شاعری میں یہ تمام اشعار مل کر ایک ایسے ادراکی سفر کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں انسان اپنی ذات، اپنے خالق اور اپنے مقامِ وجود کو تلاش کرتا ہے۔ ان اشعار میں پنہاں سوالات، تضادات اور دریافتوں کے ذریعے شاعر قاری کے ذہن کو جھنجوڑتا ہے اور اسے اپنے وجود کے اسرار کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔ انجمن ترقی اردو ہند کے زیر اہتمام شائع ہونے والی یہ کتاب نہ صرف شاعری کا شاہکار ہے بلکہ انسانی ذہن کی گہرائیوں میں اترنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔

شاہد کمال کی شاعری میں ایک گہرا روحانی رنگ، عرفانِ ذات اور خالق سے قربت کی جستجو نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کے کلام میں خدا محض ایک ماورائی طاقت نہیں بلکہ ایک ایسا زندہ، حاضر و ناظر وجود ہے جو انسان کی روح کے نہاں خانوں میں بسا ہوا ہے۔ ان کے اشعار میں خدا اور انسان کے رشتے کو نہ صرف عقیدت کے پیرائے میں دیکھا گیا ہے بلکہ اسے ایک ذاتی، جذباتی اور فکری تجربے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ان کے نزدیک خدا کو انسان کے باطن میں موجود ایک ایسی قوت کے طور پر ظاہر کرتا ہے جو انسان کو تسلی اور اعتماد عطا کرتی ہے۔ جب انسان کو یہ شعور ہو جائے کہ اس کے اندر خدا کا عکس ہے، تو تمام غم بے معنی محسوس ہونے لگتے ہیں۔

شاعر اس عمومی تصور کی نفی کرتا ہے کہ خدا صرف عبادت گاہوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ خدا انسان کے دل کے قریب تر ہے، عبادت گاہوں سے زیادہ روح کے اندر ہے۔

وہ خدا کی بطورخالق لافانی صفات کو بیان کرتے ہیں۔ خدا وہ ہستی ہے جو کائنات کا خالق ہے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے چاہے فنا کر دے۔ انسان کی تخلیق اور اس کی تقدیر کے بارے میں گہری سوچ پیش رکھنے والا شاہد کمال خدا کے "ذوق ہنر" کو تسلیم کرتا ہے مگر ساتھ ہی اپنی بے بسی کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ وہ محض ایک فن پارہ ہے جسے بنایا بھی گیا اور توڑا بھی جا رہا ہے۔

ان کے اشعار میں جگہ جگہ صوفیانہ طرز فکر کی عکاسی ملتی ہے، جہاں دنیاوی بادشاہت کو ترک کرکے خدا سے قربت کو اصل سلطانی مانا گیا ہے۔ فقیر، جو دنیا سے بے نیاز ہے، دراصل خدا کا محبوب بندہ ہوتا ہے۔

خدا کی محبت ایک عاشق کی محبت کی مانند بیان ہوئی ہے۔ شاعر ہر جگہ، ہر لمحہ خدا کے جلوے کو محسوس کرتا ہے، گویا وہ ایک محبوب کی مانند ہر جگہ موجود ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی بے بسی کو بھی ایے شعری اظہار کا حصہ بناتا ہے جہاں دعا، شفا اور حتیٰ کہ خود مرض بھی خدا کی مشیّت پر چھوڑ دی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں خدا کو ایک فیصلہ ساز قوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو انسان کی تمام کوششوں سے بالا تر ہے۔

خدا اور انسان کے درمیان ابدی ہمراہی کی گواہی ان کی شاعری کا کلیدی موضوع ہے۔ شاعر خدا کو اپنے سفر اور قیام، دونوں کا ساتھی مانتا ہے، جو کبھی جدا نہیں ہوتا۔

بلکہ خود شناسی کے آئینے میں خدا شناسی کاعمل ہر پل جاری و ساری رہتا ہے۔ جب انسان خود کو پہچانتا ہے تو گویا وہ خدا کی تخلیق کے جمال اور بزرگی کو دیکھتا ہے۔

شاہد کمال کی شاعری میں خدا کا تصور روایتی مذہبی دائرے سے نکل کر ایک زیادہ انفرادی اور باطنی تجربہ بن جاتا ہے۔ ان کے اشعار میں خدا کبھی محبوب ہے، کبھی خالق، کبھی فنا کرنے والا اور کبھی دل کے اندر چھپا رفیق۔ انسان اور خدا کے تعلق کو انہوں نے درد، عشق، دعا، تقدیر اور خود شناسی کے آئینے میں پیش کیا ہے، جو قاری کو نہ صرف روحانی طور پر جھنجھوڑتا ہے بلکہ ایک گہری فکری کیفیت میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔

یہی خصوصیت شاہد کمال کو ایک منفرد اور باکمال صوفی شاعر کے درجے پر فائز کرتی ہے۔