1. ہوم
  2. کالمز
  3. فرحت عباس شاہ
  4. علامہ اقبال کی نظر میں کشمیر

علامہ اقبال کی نظر میں کشمیر

علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کے اُس فکری، روحانی اور انقلابی ذہن کے نمائندہ شاعر و مفکر ہیں جن کی شاعری محض جذباتی اظہار نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر فکری نظام کا مظہر ہے۔ ان کے نزدیک انسان، قوم، امت اور ملت کی بقا کا راز خودی، عمل اور روحانی بیداری میں ہے۔ اقبال کے آباؤ اجداد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے، ان کا خاندان کئی صدیوں قبل سیالکوٹ منتقل ہوا، لیکن کشمیر ان کے شعور، احساس اور وجدان کا جزوِ لازم رہا۔ اسی لیے کشمیر نہ صرف ان کی شاعری میں جلوہ گر ہے بلکہ ان کے فکری و سیاسی رویّے کا ایک بنیادی محور بھی ہے۔ اقبال نے اپنے کلام میں جہاں مشرق و مغرب، فرد و امت اور خدا و انسان کے باہمی تعلقات پر فلسفیانہ گفتگو کی ہے، وہیں کشمیر کے مسلمانوں کی محکومی، مظلومیت اور ان کی روحانی و اخلاقی گراوٹ پر بھی گہرا دکھ ظاہر کیا ہے۔ اقبال کی نظم "آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر" (ارمغانِ حجاز) اس حوالے سے ان کے درد و احساس کی نہایت مؤثر اور جامع ترجمان ہے۔

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

سینۂ افلاک سے اٹھتی ہے آہِ سوزناک
مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سلطان و امیر

کہہ رہا ہے داستاں بیدردیِ ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقانِ پیر

(ارمغانِ حجاز، کلیاتِ اقبال، صفحہ 645)

یہ نظم دراصل اقبال کے اندرونی کرب اور قومی شعور کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ کشمیر کی موجودہ غلامی کو محض سیاسی محکومی نہیں سمجھتے بلکہ روحانی انحطاط کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک آزادی کا تصور محض جغرافیائی حدود سے وابستہ نہیں بلکہ یہ ایک داخلی و اخلاقی کیفیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ "خودی" کو انسان کی اصل قوت اور آزادی کی بنیاد سمجھتے ہیں:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

(بالِ جبریل، صفحہ 250)

اقبال اس فلسفۂ خودی کے ذریعے کشمیر کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنے اندر شعورِ ذات، عمل کی قوت اور ایمانی استقلال پیدا کریں تاکہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ سکیں۔ اقبال کی نظر میں کشمیر محض ایک وادی نہیں بلکہ اسلامی تہذیب کا مرکز ہے جو ماضی میں علم و عرفان، روحانیت اور فنونِ لطیفہ کا گہوارہ رہا۔ وہ اپنے ایک اور شعر میں فرماتے ہیں:

کشمیر کی وادی میں وہ نغمۂ شوق اب کہاں
وہ بانسری کی تانیں، وہ عشق کی فغانیں کہاں

(بانگِ درا، صفحہ 125)

یہ اشعار اس عظمتِ رفتہ پر نوحہ ہیں جو کبھی کشمیر کا سرمایۂ فخر تھی۔ اقبال کے نزدیک کشمیر کا زوال دراصل اسلامی شعور کے زوال کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے اپنی فارسی تصنیف "پیامِ مشرق" میں بھی کشمیر کے قدرتی حسن اور روحانی گہرائیوں کا ذکر کیا ہے، جہاں وہ کہتے ہیں:

چمنِ ما ز بویِ گل آلودہ شد
دلِ ما ز سوزِ غم افسردہ شد

(پیامِ مشرق، صفحہ 312)

یہاں"چمنِ ما" کشمیر کی طرف اشارہ ہے جو حسن و جمال کے باوجود غم و الم کی فضا میں ڈوبا ہوا ہے۔

اقبال کا کشمیر سے صرف جمالیاتی یا نسبی رشتہ نہیں بلکہ ایک عملی اور سیاسی وابستگی بھی تھی۔ انہوں نے 1931ء میں کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ "انجمن کشمیری مسلماناں لاہور" کی قیادت بھی کی۔

(اقبالیات، جلد 47، شمارہ 2، صفحہ 21)۔

اسی تنظیم کے تحت اقبال نے مسلمانوں کو متحد ہونے، اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا پیغام دیا۔ ان کی تقاریر اور خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو صرف علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ "اسلامی اخوت" اور "انسانی مساوات" کا مسئلہ سمجھتے تھے۔ ان کے ایک مکتوب میں ہے: "کشمیر کے مسلمانوں کو اپنی تقدیر خود لکھنی ہے، یہ محض سیاسی جدوجہد نہیں بلکہ ایک روحانی فریضہ ہے"۔ 

(خطوطِ اقبال بہ شیخ عبداللہ، 1932، مجموعہ مکتوباتِ اقبال، صفحہ 89)

اقبال کے سیاسی شعور نے کشمیر کی تحریکِ آزادی پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی فکرنے شیخ عبداللہ، چودھری غلام عباس اور دیگر کشمیری رہنماؤں کو نظریاتی بنیاد فراہم کی۔

(اقبالیات، جلد 50، صفحہ 112)۔

ان کا تصورِ امت، جو کسی خاص جغرافیے یا نسل سے ماورا ہے، کشمیر کے مسلمانوں کے لیے ایک ہمہ گیر پیغام رکھتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابِ خاکِ کاشغر

(بانگِ درا، صفحہ 212)۔

اس شعر میں"تابِ خاکِ کاشغر" کی سرحد میں کشمیر بھی شامل ہے۔ اقبال یہاں مسلمانوں کو امتِ واحدہ کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں کسی علاقائی تقسیم کی گنجائش نہیں۔ یہی فکر کشمیر کے مسئلے میں ان کے نقطۂ نظر کو عالمی اسلامی پس منظر میں جوڑتی ہے۔ اقبال کے نزدیک مغربی سامراجیت، ہندو سیاسی بالادستی اور مسلمان قیادت کی کمزوری تین بنیادی عوامل ہیں جنہوں نے کشمیر کو محکوم بنایا۔

(اقبال ریویو، شمارہ بہار 1933، صفحہ 44)۔

وہ اپنی نظم "خضرِ راہ" میں اس استعماری غلامی پر طنز کرتے ہیں:

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

(بانگِ درا، صفحہ 197)

یہ اشعار دراصل وہ داخلی منشور ہیں جو کشمیر کے مسلمانوں کے لیے روحانی اور سیاسی آزادی کا راستہ متعین کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک محکوم اقوام کی نجات کسی بیرونی طاقت کے مرہونِ منت نہیں بلکہ ان کی اپنی خودی، ان کی اخلاقی قوت اور ان کے ایمانی استقلال سے وابستہ ہے۔ وہ کشمیر کے مسلمانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ خدا بھی اُن قوموں کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت بدلنے کا عزم نہیں کرتیں۔

(اقبالیات، جلد 48، صفحہ 96)

اقبال کے فلسفۂ خودی کے عملی مظاہر میں کشمیر ایک خاص مقام رکھتا ہے، کیوں کہ ان کے نزدیک خودی کا ظہور غلامی کے خلاف مزاحمت میں ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

(بالِ جبریل، صفحہ 231)

یہی پیغام کشمیر کے مسلمانوں کے لیے ہے کہ وہ اپنے اندر ایمان، عزم اور شعور پیدا کریں تاکہ بیرونی جبر کی زنجیروں کو توڑ سکیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں کشمیر کے حسن کو جنتِ ارضی کے طور پر سراہا، مگر اس جنت کی بربادی کو انسان کے اخلاقی زوال سے تعبیر کیا۔

ہے جنتِ نظیر یہ وادی، مگر افسوس
اس جنتِ نظیر میں انسانیت کا جنازہ ہے

(اقبالیات، تحقیق نمبر 3، صفحہ 58)

اقبال کی یہ فکری جہت اس بات کا اعلان ہے کہ حسن اگر آزادی کے بغیر ہو تو وہ محض تماشہ ہے۔ کشمیر کے پہاڑ، ندی نالے، جھیلیں اور سبزہ زار اقبال کے نزدیک فطرت کے حسن کا استعارہ ہیں، مگر ان کے باسیوں کی محکومی اس حسن کی معنویت چھین لیتی ہے۔ اقبال کا تعلق چونکہ فارسی زبان و ادب سے بھی گہرا تھا، اس لیے انہوں نے فارسی شاعری میں بھی کشمیر کا تذکرہ بطور روحانی مرکز کیا ہے۔ ان کی فارسی نظم "ساقی نامۂ کشمیر" میں وہ کہتے ہیں:

اے بادِ صبا! ایں پیامِ من رسان
ز کشمیرِ من بہ مردانِ زمان

کہ برخیزید و بہ خود آرید دل
کہ در بندِ غیر ماند این کاخ و گل

(ارمغانِ حجاز، فارسی حصہ، صفحہ 678)

یہ شعر گویا ایک روحانی اعلان ہے کہ کشمیریوں کو بیدار ہو کر اپنے دلوں میں خودی کی روشنی پیدا کرنی چاہیے۔ اقبال کی فکر کا یہ پہلو اُن کے سیاسی رویے کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اقبال کے نزدیک کشمیر کی غلامی محض ایک خطّے کا مسئلہ نہیں بلکہ مشرقِ اسلامی کی اجتماعی غلامی کی علامت ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

اگر خارا شگاف استی، ز خود دیگر گلہ کم کن
کہ زیرِ چرخِ نیلو فر کسی نادیدہ قید استی

(اسرارِ خودی، صفحہ 165)

یہاں شاعر اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ غلامی صرف جسمانی نہیں بلکہ فکری اور روحانی بھی ہے اور یہ غلامی انسان کی خودی کو مٹا دیتی ہے۔ کشمیر کے تناظر میں یہ اشعار گویا ایک آئینہ ہیں جو اس قوم کو اس کی اپنی بے عملی کا احساس دلاتے ہیں۔

اقبال کے نزدیک کشمیر کی نجات کا راستہ اسلام کی روحانی اور اخلاقی اقدار سے جڑا ہے۔ وہ مغربی مادیّت اور مشرقی جمود دونوں کو انسان کی تباہی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک آزادی کا پہلا زینہ ایمان ہے، دوسرا عمل اور تیسرا اتحاد۔ یہی اصول وہ کشمیریوں کے لیے بیان کرتے ہیں۔

(اقبالیات، جلد 49، صفحہ 145)

اقبال نے اپنی نثر میں بھی کشمیر کے سیاسی اور معاشی استحصال پر بات کی۔ 1931ء میں جب ڈوگرہ حکومت کے مظالم عروج پر تھے تو انہوں نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: "کشمیر کی وادی وہ جنت ہے جس میں ظلم کی خنک ہوا بہہ رہی ہے اور جس قوم کے نوجوان بے ضمیر رہیں، وہاں بہار بھی خزاں کے مترادف ہے"۔ 

(اقبال ریویو، شمارہ 1932، صفحہ 62)۔

یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ اقبال کا کشمیر کے ساتھ تعلق محض شاعرانہ نہیں بلکہ ایک زندہ اخلاقی رشتہ تھا۔ ان کے نزدیک شاعر صرف محسوس کرنے والا نہیں بلکہ رہنمائی کرنے والا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

شاعرِ دلنواز بھی بات اگر کہے تو کیا
اس کا اثر بھی کچھ نہیں، دل میں اگر ہو نہ دردِ دل

(بالِ جبریل، صفحہ 289)

اقبال کے یہاں"دردِ دل" کشمیر کے تناظر میں ایک اجتماعی احساسِ ذمے داری بن جاتا ہے۔ وہ اس درد کو امتِ مسلمہ کے باطن کی بیداری سمجھتے ہیں۔ کشمیر کے لوگوں کے لیے ان کی شاعری محض ادبی ذوق نہیں بلکہ روحانی منشور ہے۔ اقبال نے ایک خط میں لکھا: "اگر کشمیر کے فرزندِ خاکی اپنی روحانی میراث کو پہچان لیں تو دنیا ان کے قدموں میں ہو"۔ 

(خطوطِ اقبال بہ چودھری غلام عباس، 1933، صفحہ 115)۔

اقبال کی فکر کی روشنی میں کشمیر محض جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبی و روحانی علامت ہے۔ ان کی نگاہ میں کشمیر کا زوال اور امت کی بے حسی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ کشمیر کے باسی اپنے ماضی کے علمی و عرفانی ورثے کو پہچانیں اور اپنے مستقبل کے معمار بنیں۔ اقبال کے نزدیک کشمیر کا درد دراصل امتِ مسلمہ کی اجتماعی بے داری کا معیار ہے۔ چنانچہ ان کی شاعری میں کشمیر کی تصویر ایک ایسے زخم کی ہے جو وقت کے ساتھ گہرا ہوتا گیا لیکن جس کی دوا بھی انہی کے افکار میں مضمر ہے۔ اقبال کے الفاظ آج بھی گونجتے ہیں:

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

(بانگِ درا، صفحہ 221)۔

یہ انتباہ محض ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ برصغیر کے تمام محکوموں، بالخصوص کشمیریوں کے لیے تھا۔ اقبال کی نظر میں کشمیر اُس عظیم روحانی تمدن کی علامت ہے جو اپنی خودی کو فراموش کرکے زوال پذیر ہوا اور اگر وہ خودی کو پہچان لے تو پھر سے اپنی تقدیر کا خود خالق بن سکتا ہے۔

(اقبالیات، جلد 52، صفحہ 80)۔