1. ہوم
  2. کالمز
  3. فرحت عباس شاہ
  4. فکری نزاکت کی حامل شاعرہ ڈاکٹر خالدہ انور

فکری نزاکت کی حامل شاعرہ ڈاکٹر خالدہ انور

تمام تر شور شرابے اور مصنوعی شاعری کی بھرمار کے باوجود ایسی ایسی شاندار شاعری تخلیق ہو رہی ہے کہ آج کے عہد کو ہماری ادبی تاریخ میں انتہائی زرخیز عہد کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اگرچہ باوقار شاعرات کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہیں اور ان کو شعری منظر پر اپنی تخلیقی آب و تاب دکھانا مشکل ہے لیکن اگر ڈاکٹر خالدہ انور جیسی ایک شاعرہ بھی اپنے معیاری اور اعلیٰ کلام کے ساتھ نمودار ہوجائے تو پورا عصر روشن نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر خالدہ انور کو فلسفہ، تصوف اور کلاسیکی ادب کا ماحول، کتب اور تعلیم گھر سے ہی میسر آئی۔ ان کے والد صوفی انور حسین ایک پریکٹسنگ صوفی اور عالم انسان تھے۔ نانا اور دادا کی طرح والدہ بھی کلامِ اقبال، میاں محمد بخش اور دیگر صوفی شعراء کے کلام کی حافظہ تھیں۔ بھائیوں کا رجحان فنونِ لطیفہ خصوصاً میوزک کی طرف رہا۔ امی، بھائی، بہن اور خود ڈاکٹر خالدہ کو رب تعالیٰ نے ایسی سُرشناسی اور سریلی آوازیں عطا کیں کہ بغیر سیکھے ان پہ بڑے گائیکوں کا گمان ہوتا ہے۔

اسی داخلی سُر، اسی موروثی لطافت اور اسی روحانی مزاج نے ان کی شاعری کو وہ باطنی جھلک دی ہے جو دور سے پہچانی جاتی ہے۔ ڈاکٹر خالدہ خیال کو محض برتتی نہیں، وہ اسے سُروں میں ڈھالنے والی ترتیب کے ساتھ سنجیدہ فکری ساخت دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شعر کہتی کم اور اپنے تجربے کی سانس کو لفظ بناتی زیادہ ہیں۔ قاری ان کے ہاں تصور، دھڑکن اور تاثر کو الگ الگ نہیں کرپاتا، کیونکہ سب ایک ساتھ تھرکتے محسوس ہوتے ہیں۔

"کہاں گمان میں تھا" ڈاکٹر خالدہ انور کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ انہوں نے 2004 میں شاعری کا آغاز کیا اور اب اٹھارہ سال بعد ان کا مجموعۂ کلام شائع ہوا ہے اور کلام بھی ایسا سامنے آیا ہے کہ شعر کے سنجیدہ قاری دل سے لگائے پھرتے ہیں۔ شفیق احمد خان جیسے جید اور مغرور شاعر اور ناقد نے انہیں عہدِ حاضر کی سب سے اعلیٰ و ارفع شاعرہ قرار دیا ہے۔ میری اپنی رائے میں بھی ان کا یہی مقام بنتا ہے۔ شاعری کے بارے میں میرا نقطۂ نظر ہے کہ اگر کیفیت اور شدتِ احساس نہیں تو بڑی سے بڑی فکر اور کرافٹ کے باوجود کسی منظوم تحریر یا عبارت کو شاعری قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ڈاکٹر خالدہ انور کی شاعری میں دکھ اگرچہ محور و مرکز نظر آتا ہے لیکن صبر کی تجسیم ان کی شاعری کی وہ مضبوط صفت ہے جو صدیوں میں ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کی ڈکشن اور اسلوب صوفیانہ نہ ہوتے ہوئے بھی کیفیاتی سطح پر اس کا تاثر کہیں کہیں صوفیانہ ضرور محسوس ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں میں اشعار جس بےساختگی اور بہاؤ کے ساتھ آتے ہیں لگتا ہے کہ غم اور یاسیت کی کوئی شام کسی بل کھاتی ندی کا روپ دھار کے پڑھنے والے کے دل کی طرف بہے جا رہی ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں ان کا فن ایک اضافی بلندی سے ہم کنار ہوتا ہے۔ بصری پیکر تراشی، فطری مناظر کی معنوی توسیع اور استعارات کی لطیف تہہ داری، یہ سب عناصر ان کی غزل کو محض اظہار نہیں رہنے دیتے بلکہ ایک مکمل جمالیاتی تجربہ بنا دیتے ہیں۔ ان کے ہاں سادگی بھی ہے اور رمز بھی، لطافت بھی اور کاری ضرب بھی۔ عورت کی داخلی کشمکش، روح کی تھکن، محبت کے زخم اور وقت کی ناانصافیاں جب ان کے بیان میں ڈھلتی ہیں تو قاری پر ایک ایسی گرفت قائم کرتی ہیں جس سے نکلنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔

عموماً خواتین کی شاعری میں مردانہ مضامین اور اسلوب حاوی نظر آتا ہے لیکن خالدہ کی شاعری میں ایک پاکیزہ اور غم زدہ صوفی خاتون بطور خالص اور حساس انسان کے غالب ہے۔ ان کی شاعری میں روشنی اور تیرگی اپنے تضاد سے کیفیات کو روزِ روشن کی طرح اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں۔ مردانہ معاشرے کے جبر کی شکار عورت کو قدم قدم درپیش عذابوں کے کرب میں لپٹے موضوعات زندگی کے مصنوعی پن کو اتنی لطافت سے بے نقاب کرتے ہیں کہ شاعری کو خود پر فخر ہونے لگتا ہے۔

سر میں چاندی اُگی تو ہاتھوں میں
جلتے بجھتے رہے حِنا کے چراغ

استعارے کی سطوت اور تمثیلات کا نرالا پن ان کے اسلوب کو انفرادیت بخشتا ہے۔

کوئی سورج وہیں سے ابھرے گا
جا رہی ہوں جہاں دبا کے چراغ

روشنی کی سبیل کرتے ہیں
کاغذوں پر بنا بنا کے چراغ

روایت اور جدت کی آمیزش کا بیان اتنا کلیشے بن چکا ہے کہ لکھنے کو دل نہیں کرتا لیکن اب کیا کیجیے کہ ڈاکٹر خالدہ انور کے ہاں یہ امتزاج اتنے شعری حسن سے آیا ہے کہ اس کا ذکر کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

وہ تکلم کہ رُکے نبضِ جہاں
ہے سکوت اس کا اشارے جیسا

یہ صدا عرش تلک جائے گی
ہم تجھے آج پکارے جیسا

***

مدتوں راستے میں بیٹھا رہا
میرا احساس، تم نہیں آئے

احساس کی پرسونیفیکیشن ان کی شاعری میں بار بار مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے۔ اب اسی جدت کے ساتھ روایت کا حسین امتزاج دیکھئے:

شکر ہے تم نے میرے خدشوں کا
رکھ لیا پاس، تم نہیں آئے

بظاہر آسان بحروں اور سادہ زبان میں کہے گئے اشعار طرزِ احساس کی ایسی ندرت لیے ہوئے ہیں کہ ان کا تخلیق پانا الہامی صورت کے بغیر ناممکن ہے۔ خالدہ کی شاعری میں زندگی اور موت کا تصور کسی فلسفیانہ نظریے کی بجائے وقت اور حالات کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے والی شکست و ریخت سے جنم لیتا خالص شعری تجربے میں ڈھل جاتا ہے۔

پوری کتاب پر ایک ماتمی فضا، دھیمے سروں میں گندھے بین اور سرمئی اداسی بہت نمایاں اور گرفت میں لینے والی ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ خالدہ انور کی شاعری ہمارے عہد کی شعری روایت کو اعتبار اور وقار بخشنے کے درجے پر فائز ہے۔

اب آخر میں ایک غزل درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ صاحبانِ درد کے ذوق کی کچھ تسکین ہوسکے:

جو مڑ کے دیکھا وہ منظر، کہاں گمان میں تھا
تمھارے ہاتھ میں خنجر کہاں گمان میں تھا

بس ایک لمحے کو میں نے نظر ہٹائی تھی
پھر اس کے بعد کا منظر کہاں گمان میں تھا

چمن چمن جسے ڈھونڈا، فلک فلک جھانکا
ملے گا میرے ہی اندر کہاں گمان میں تھا

صفِ غنیم ہی پیشِ نظر رہی لیکن
یہ خیر خواہوں کا لشکر کہاں گمان میں تھا

بڑے ہی شوق سے مانگیں دعائیں بیٹی کی
پہ بیٹیوں کا مقدر کہاں گمان میں تھا

وہ آسماں کہ جسے عمر بھر اٹھا کے چلی
گرے گا میرے ہی اوپر کہاں گمان میں تھا

تنزلی کے مقاصد نظر میں تھے سارے
مگر زوال کا مصدر کہاں گمان میں تھا