بیشتر پاپولر مغربی تھیوریوں کے برعکس ادراکی تنقید (Perceptional Criticism) محض Cognitive Critical Theory تک محدود نہیں، بلکہ اس سے مراد پیش کردہ فلسفے "Perceptionism"کی تنقیدی تھیوری ہے، جو شاعری، فلسفہ اور فنونِ لطیفہ کے گہرے رشتے کو سمجھنے کا ایک نیا زاویہ فراہم کرتی ہے۔ اس نظریے کے تحت "ادراک" (Perception) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس میں فنکار یا شاعر کا ذاتی ادراک، اس کی فلسفیانہ بصیرت اور تخلیقی عمل کو نہ صرف بیان کیا جاتا ہے بلکہ اس کی تنقیدی تشریح بھی کی جاتی ہے۔
ادراکی تنقیدی دبستان اردو ادب کو ایک فکری اساس فراہم کرتا ہے جو نہ صرف مغربی تنقید کی یکطرفہ تسلط کو چیلنج کرتا ہے بلکہ تخلیق، تنقید اور تہذیب کے درمیان ایک متوازن رشتہ قائم کرتا ہے۔
تنقید کے میدان مں اب تک کے پش کیے مغربی نظریات اور ادراکی تنقید کا موازنہ کیا جائے تو اس بات کی ضرورت کا احساس بڑھ جاتا ہےکہ ادب کی پرکھ پرچول کے لیے محض مغربی تھیوروں پر انحصار ادبی فکری دائرے کو محدود کرنے والا عمل ثابت ہوگا۔
ادبی تنقید کے میدان میں مغربی تنقیدی نظریات (جیسے New Criticism) اور ادراکی تنقید (Perceptionism)کے درمیان بنیادی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلافات نہ صرف فن پارے کے تجزیے کے طریقہ کار کو متاثر کرتے ہیں، بلکہ تخلیق، تشریح اور ثقافتی اقدار کے بارے میں بھی مختلف نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ۔۔
1۔ مرکزیت: متن بمقابلہ تخلیق کار کا ادراک
مغربی تنقید (خاص طور پر New Criticism) میں متن (Text) کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ نظریہ "متن سے باہر" تمام عناصر جیسے مصنف کا پس منظر، تاریخی سیاق یا معاشرتی حالات کو غیر اہم قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک ادبی تجزیہ صرف الفاظ، اسلوب اور متن کے داخلی ڈھانچے تک محدود ہونا چاہیے۔
ادراکی تنقید میں تخلیق کار کے ذہنی ادراک کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ نظریہ مانتا ہے کہ فن پارہ دراصل مصنف کے داخلی تجربات، روحانی کیفیت اور تہذیبی شعور کا عکس ہوتا ہے۔ لہٰذا، تنقید کا کام صرف متن نہیں، بلکہ اس کے پیچھے کارفرما نفسیات اور عرفانی حقائق کو سمجھنا ہے۔
2۔ زبان کی حیثیت: لسانی ڈھانچہ بمقابلہ روحانی وسیلہ
- مغربی تنقید کے لیے زبان ایک منظم لسانی نظام ہے، جس کا تجزیہ منطقی اور ساختیاتی اصولوں کے تحت کیا جاتا ہے۔ New Criticism کے مطابق، ادب کی تشریح میں لفظی معنیٰ، استعاروں اور تکنیکی خوبیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
- ادراکی تنقید میں زبان کو روحانی اور عرفانی اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک ایسا وسیلہ ہے جو مصنف کے باطن کی گہرائیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ مشرقی ادب (خصوصاً صوفیانہ شاعری) میں یہ نقطہ نظر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
3۔ تہذیب اور تنقید کا رشتہ
مغربی تنقید (بالخصوص ساختیات اور New Criticism) میں تہذیبی سیاق (Cultural Context) کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ اس کے نزدیک ادب کا تجزیہ "متن کی خود کفالت" پر انحصار کرتا ہے۔
- ادراکی تنقید کے لیے تہذیب اور تاریخ بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ تخلیق کار کا ادراک اپنے ماحول اور ثقافتی ورثے سے جڑا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اقبال کی شاعری کو سمجھنے کے لیے اسلامی فلسفہ اور برصغیر کی تہذیبی کشمکش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
4۔ فلسفہ اور تنقید کا تعلق
مغربی تنقید اکثر فلسفے سے الگ تھلگ ہوتی ہے اور اپنے آپ کو **صرف ادبی تکنیکوں ** تک محدود رکھتی ہے۔
ادراکی تنقید فلسفہ اور ادب کے گہرے رشتے پر زور دیتی ہے۔ خاص طور پر مشرقی ادب میں، جہاں تصوف، وجودیت اور ماورائیات جیسے موضوعات ادب کا لازمی حصہ ہیں، فلسفیانہ تفہیم کے بغیر تنقید نامکمل رہ جاتی ہے۔
5۔ قاری کا کردار: غیر فعال شریک بمقابلہ تخلیقی ساتھی
مغربی تنقید میں قاری کا کردار غیر فعال ہوتا ہے، کیونکہ متن کی تشریح "مصنف کی موت" کے بعد اپنے آپ میں مکمل سمجھی جاتی ہے۔
ادراکی تنقید میں قاری تخلیقی عمل کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، قاری اپنے ذہنی ادراک کے ذریعے فن پارے کو نئے معنیٰ عطا کرتا ہے، جس سے ادب کی تفسیر ہمیشہ متحرک رہتی ہے۔
مغربی تنقید اور ادراکی تنقید کے درمیان یہ موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ ادب کے مطالعے کے لیے ایک ہی راستہ کارفرما نہیں ہو سکتا۔ جہاں مغربی تنقید متن کی "عینیت (Objectivity)" پر زور دیتی ہے، وہیں ادراکی تنقید فن کے جذباتی، روحانی اور تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ دونوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہی ادب کے گہرے اور ہمہ جہت تجزیے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔