وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حال ہی میں مکمل ہونے والا "جناح سکوائر منصوبہ" محض دو گھنٹے کی موسلادھار بارش بھی برداشت نہ کرسکا اور ایسے بیٹھ گیا جیسے یہ 50 سال پہلے تعمیر کیا گیا ہو۔ یہ سانحہ وفاقی دارالحکومت کے صرف ایک سڑک کے بیٹھ جانے کا ہی نہیں بلکہ ایک قومی ضمیر کی گرتی ہوئی ساخت، ادارہ جاتی ناکامی اور تعمیراتی معیار کی زبوں حالی کا بھی مظہر ہے۔
پاکستان میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو اکثر ترقی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ایوب خان کے دور میں تعمیراتی منصوبوں جیسے منگلا اور تربیلا ڈیم نے عوام کو ایک امید دی کہ قومی سطح پر منصوبہ بندی ممکن ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ بدعنوانی، ناقص منصوبہ بندی اور "جلد بازی میں تکمیل" کا رحجان بڑھتا چلا گیا۔ پروجیکٹس وقت پر تو مکمل ہونے لگے، مگر پائیداری اور معیار کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا۔
جناح سکوائر منصوبہ، جو 84 دنوں میں 4.2 ارب روپے کی خطیر رقم سے مکمل کیا گیا، دراصل وفاقی دارالحکومت کے لیے ایک جدید انفراسٹرکچر کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس منصوبے میں تین انڈر پاسز شامل تھے، جن میں ایک خیابانِ سہروردی اور دو سری نگر ہائی وے پر بنائے گئے تھے۔ منصوبے کا بنیادی مقصد ٹریفک کے بہاؤ کو بہتر بنانا تھا، لیکن یہ سارا خواب پہلی ہی بارش میں بکھر گیا۔
سری نگر ہائی وے کا وہ انڈر پاس جو عوامی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا، بارش کے بعد گڑھے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ سی ڈی اے (Capital Development Authority) کی جانب سے نہ صرف بروقت مٹیریل کے معیار کو جانچنے میں غفلت برتی گئی بلکہ منصوبے کی تعمیر میں جلد بازی اور نگرانی کی کمی نے اس ناکامی کو جنم دیا۔
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں یہ سوال شدت سے اٹھا جارہا ہے کہ آخر ہم معیار کو کیوں قربان کرتے ہیں؟ سی ڈی اے اور متعلقہ حکام پر یہ الزام عائد ہو رہا ہے کہ انہوں نے رفتار کو معیار پر فوقیت دی۔ ایسے منصوبے جو عوامی پیسے سے مکمل کیے جاتے ہیں، ان میں شفافیت اور تکنیکی نگرانی بنیادی تقاضا ہوتی ہے جو اس منصوبے میں بظاہر مفقود رہی۔
اسی دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کی نئی عمارت کا بھی حال سامنے آیا جہاں بارش کے بعد ایڈمنسٹریشن بلاک اور بائیو میٹرک تصدیق والے کوریڈورز میں پانی جمع ہوگیا اور لفٹس بند کرنا پڑیں۔ اربوں روپے کی لاگت سے بننے والی عدالتی عمارت کا ایسا حال قومی اداروں کی ناقص کارکردگی اور کنٹرول میکانزم کی ناکامی کی نشان دہی کرتا ہے۔
عوامی ردعمل شدید مایوسی اور غصے پر مبنی ہے۔ عام شہریوں، شہری تنظیموں اور سماجی کارکنان نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک آزادانہ تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے۔ منصوبے میں شامل ٹھیکیداروں اور نگران افسران کا احتساب کیا جائے۔ قومی خزانے سے ضائع ہونے والی رقم کی تلافی کی جائے۔ آئندہ منصوبوں کے لیے معیار کی ضمانت دی جائے۔
جناح سکوائر کا بیٹھ جانا محض ایک تعمیراتی ناکامی ہی نہیں، بلکہ ہمارے نظام کی بنیادوں میں پڑی دراڑوں کا اعلان بھی ہے۔ ہمیں صرف سڑکیں، انڈر پاس اور عمارتیں ہی نہیں بلکہ اپنے ادارہ جاتی ڈھانچے، احتسابی نظام اور تعمیراتی وژن کی بھی تعمیر نو کرنی ہوگی۔ اگر ہم نے اس بار بھی صرف ملبہ ہٹانے پر اکتفا کیا، تو یہ گڑھا صرف سری نگر ہائی وے میں ہی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی فکری سڑک پر بھی پڑا رہے گا۔ امید ہے اس قومی مسئلے پر ارباب اختیار خود کو جھنجھوڑنے کی زحمت گوارا کریں گے۔