خونی رشتوں کو کھو کر زندہ رہنا بڑا ہی عجیب، طویل اور مجموعی طور پر تلخ سا تجربہ رہتا ہے۔
آغاز ایک شدید جھٹکے سے ہوتا ہے۔
ابا جب فوت ہوئے تو ہمیں احساس ہوا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا بندہ اچانک مر جائے تو گاڑی اور باقی کے مسافروں پر کیا بیت سکتی ہے۔ ابھی حالات یہ تھے کہ ابا مرحوم کوئی قرض چھوڑ کر نہیں گئے تھے، ایک عدد گھر جو تکمیل کے آخری مراحل میں تھا ہمیں دان کرکے گئے تھے، سرکاری ملازمت کے باعث انشورنس پینشن وغیرہ کے مسائل سے بچا کر گئے تھے، چار میں سے تین بچوں کو تعلیم یافتہ کرکے گئے تھے، ایک بیٹی کو سسرال پدھار کر گئے تھے۔۔ مطلب۔۔ اپنی میجر ذمہ داریاں وہ نبھا کر فوت ہوئے مگر۔۔ باپ کی موت کے لیے بھلا کون ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے؟
اگلا مرحلہ یقین کی جانب سے دغا کا ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسی خبر ہوتی ہے کہ یقین آپ کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ میں دبئی میں تھا۔ دبئی سے اسلام آباد کی فلائٹ ملی، وہاں سے پشاور گاڑی کروائی۔ چھ سات گھنٹے کے اس دورانیے میں ابا کی وفات کی خبر میرے سر میں یوں گونج رہی تھی جیسے گویا کوئی ہتھوڑے مار رہا ہو۔ یقین البتہ میں کرنے سے قاصر رہا۔ یقین ان کے بے جان جسم کو چارپائی پر بے سدھ دیکھ کر ہی آیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رعب اور دبدبے والے ابا اس طرح سے لیٹے ہوئے ہیں، آج پانی بھی نہیں مانگ رہے۔
اس کے بعد خوبصورت یادوں کا ایک آسیب آتا ہے۔
جیسے آپ کسی حسین منظر سے دکھ محسوس کرنے لگے ہوں۔ آپ نوٹ کیجئے گا کسی قریبی رشتے کے حیات ہوتے اس سے منسلک یادیں دماغ میں شاذ ہی کلبلاتی ہیں اور پردہ ذہن پر ان کا ظہور ہو بھی جائے تو یہ آکر بس چلی جاتی ہیں۔ اس کی نسبت ابا کے جانے کے دنوں بعد ان کا پانی کی موٹر چلانے سے لے کر عید پر قصائی کا بندوبست کرنے کی جلدی کرنا، گھر کا سودا سلف لانے کے لیے تحریک دینا، کھانا پکانے میں مشورے دینا۔۔ سب یاد آنے لگتا تھا۔ ہفتوں بعد بچپن میں ان کے ساتھ کیے سفر، مچھلی کا شکار، ان کے ساتھ سکول کالج کے چکر۔۔ سب یاد آنے لگتے ہیں۔ اپنی اصل میں یہ کس قدر حسین یادیں ہیں مگر۔۔ اس وقت یہ یادیں ایک آسیب کی طرح لگتی تھیں۔ ہر بار ایسی یاد دستک دے کر اللہ حافظ کہتی تو احساس دلا کر جاتی کہ ابا۔۔ اب نہ رہے۔
پھر آیا ایک گلٹ کا سفر۔۔
کیا ہی بولنا ضمیر پر احساس جرم کے بوجھ کا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ فقط میرے ہی ساتھ کا معاملہ تھا کہ میرے اپنے والد کے ساتھ جوانی کے کچھ سال مثالی نہ رہے۔ آج ایک عرصے بعد پیچھے مڑ کر دیکھنے کے بعد دوبارہ اپنے ارد گرد دیکھوں تو معلوم ہوتا ہے ہر بندہ ہی کوئی قلق لیے پھر رہا ہے۔ میں مثالی بیٹوں بیٹیوں کو جانتا ہوں جو اپنے دل کے کسی نہ کسی حصے میں جانے کتنے ہی احساس جرم لیے پھر رہے ہیں۔ اس پر میں نے اپنی ذات کو ایک عرصہ سزا دینے کے بعد بالآخر معاف کر دیا۔ یہ مرحلہ البتہ سب سے طویل تھا۔
اور پھر آتی ہے "کاش" کی دہائی۔۔
ابا کی زندگی اس وقت تمام ہوئی جب میری عمر ستائیس برس تھی۔ منہ میں سونے کا چمچ تھا نہیں۔ ستائیس سال تک میری زندگی کی واحد اچیومنٹ بس یہاں تک تھی کہ میرے آفس والے مجھے ساتھ رکھنا چاہتے تھے مگر میں میرٹ پر انٹرویو دے کر دبئی ایک مناسب جاب حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ ابا تو چلے گئے مگر ان کے جانے کے بعد ہر اچیومنٹ پر دل میں ایک "کاش" کے بوجھ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ کاش انہیں دبئی بلا سکتا۔۔ کاش ان کو آسٹریلیا پھرا سکتا۔۔ کاش انہیں گاڑی دکھا سکتا۔۔ کاش کاش کاش اور کاش۔ ایسے کئی کاش ہیں جو اب زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
بس ایک مہربانی ہوئی انسانی دماغ کی جانب سے۔۔
ابا کے ساتھ یادیں۔۔ اب دکھی نہیں کرتیں۔ ان کے ساتھ ہر یاد ایک حسین یاد ہے۔
(آج سے بارہ برس قبل مورخہ 28 جون 2013 کے دن میرے والد اور بھٹی صاحب کے والد ایک ہی روز اللہ کے حضور پیش ہوئے۔ یہ دن ہمیشہ بھاری رہتا ہے)