1. ہوم
  2. کالمز
  3. فرحت عباس شاہ
  4. مابعد جدیدیت، سماجی تباہی کا جال

مابعد جدیدیت، سماجی تباہی کا جال

مابعد جدیدیت، جدیدیت کے بعد مسلط کیا جانے والا ایک مصنوعی فکری اور فلسفیانہ رجحان ہے جس نے نہ صرف عقلیت اور سائنس پر مبنی جدید نظریات کو چیلنج کیا، بلکہ مذہب، ثقافت، علم، زبان اور معنویت جیسی بنیادی سچائیوں کو بھی مشکوک بنا ڈالا۔ اس سازش نے انسانوں کو فکری اور معاشروں کو اخلاقی سطح پر "مفلوج" کرنے کی پوری کوشش کی جو ابھی تک جاری ہے۔

پہلے جدیدیت کے زریعے مذہبی اصولوں کو غیر سائنسی قرار دے کر رد کیا گیا پھر اخلاقیات کو مذہب سے الگ کرکے، نسبتی مخمصوں میں تبدیل کر دیا گیا، جس کا نتیجہ اخلاقی بے راہ روی کی صورت میں نکلا۔ اس سے پہلا نقصان یہ ہوا کہ ثقافتی یکسانیت کو فروغ ملا، جس نے مقامی اقدار کو کچل ڈالا اور تہذیبی شناخت کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بات زیر بحث لائی جانی چاہیے کہ معاشرے روایات اور اقدار کی وجہ سے ہی مہذب معاشرے کہلاتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسی تھیوریاں آخر کیوں مذہب، فلسفے، تہذیب، ثقافت، ویلیوز اور روایات کو کبھی ماڈرنزم کے نام پر، کبھی عقلیت کے بہانے اور کبھی سائنسیت کا دھوکہ دے کر منہدم کرنا چاہتی ہیں۔ اگر نہیں سوچا تو اب سوچئیے۔

مابعد جدیدیت نے جدیدیت سے ایک قدم آگے بڑھ کر تمام قسم کی مطلق سچائیوں کو ہی مسترد کر دیا۔ مابعد جدیدیت والے کرائے کے مفکرین جیسے میشل فوکو اور ژاں فرانسوا لیوتار کا ماننا ہے کہ حقیقت سماجی، ثقافتی اور لسانی تعمیر کا نتیجہ ہے، کوئی مطلق چیز نہیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے عظیم فکری بیانیوں کو انسانی شعور کا ارتقاء سمجھتے ہے ان کااحترام کرنے کی بجائے انتہائی بھونڈا، مکارانہ اور شیطانی انکار ان کے منہ پہ دے مارا اور سائنس، ترقی، مارکسزم اور مذہب جیسے نظریات کو طاقت کے اوزار قرار دے کر مشکوک بنا دیا۔

تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے انگریزی ادب کو لینگوئسٹک سے ری پلیس کیا جا رہا ہے اور زبان کو حقیقت کا عکاس نہیں بلکہ ایک "کھیل" بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ لفظ کےپیچھے تہذیبی معنویت کی بےحرمتی کرنے کے لیے اسے متن کہہ کر پکارے جانےکو علمی تفاخر سمجھا جانے لگا ہے جس نے معنی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے متزلزل کرکے رکھ دیا ہے۔ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے تحریر اور کلام کو متن کہنے کے رواج سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شیطانی تھیوریاں کمزور ذہنوں کو کس طرح شکنجے میں لے چکی ہیں جس کی وجہ سے تجزیاتی سوچ سے محروم مدرسین متن کہنے میں خود کو پڑھا لکھا ظاہر بھی کرتے ہیں اور خود محسوس بھی کرتے ہیں۔

مابعد جدیدیت نے منظم طریقے سے انسانی فکر اور معاشرتی اخلاقیات کو مفلوج کرنے کے لیے درج ذیل حربے استعمال کیے۔

نمبر ایک نسبیت (Relativism) کا عفریت، یعنی ہر قسم کی سچائی، اخلاقیات اور علم کو "سیاق و سباق (Context) پر منحصر" قرار دے کر اخلاقی بے راہ روی کو فروغ دیا گیا۔

جس کی مثال یہ ہے کہ مذہبی اخلاقیات کو شخصی رائے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ خود ہماری محفلوں میں کہاجاتا ہے کہ چھوڑیں جناب کوئی جھوٹا، کمینہ، بدیانت یا چور ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ وہ مصرعہ کیسا باندھتا ہے، مضبوط اور کسا ہوا۔ یعنی کسی کا ذاتی فعل قرار دےکر اسکے تمام تر اخلاقی، قانونی اور سماجی جرائم کو نظر انداز کر دینے کو رواج دیے جانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

پھر کلچرل ہائبرڈیٹی (Hybridity) جسے میں ثقافتی اغلام کہتا ہوں کے نام پر شناختوں کو ٹکڑوں میں بانٹا گیا، جس سے انسان اپنی روایتی، مذہبی اور قومی جڑوں سے کٹ گئے۔

نتیجتاََ سماجی انتشار اور نفسیاتی بے چینی ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ معاشرے میں ڈیپریشن بڑھتا جا رہا ہے لیکن اس کی وجوہات پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

علم کو دربار سرکار کی مضبوطی کا ایندھن بنانے کے لیے پولیٹیسائز کیا گیا اور اس علمی سیاست کاری میں سازشی تعلیمی نظام اور جاہل، مفاد پرست، لالچی اور بدیانتی پی ایچ ڈی مدرسین پیدا کرکے ان کو کانفرنسوں، غیر ملکی دوروں، بڑے بڑے عہدوں اور دیگر مفادات کے زریعے خرید کر پورا نظام کرپٹ کردیا گیا۔ خاص طور پر بڈھے مدرسین، استاد کا محترم و معتبر چغہ پہن کر چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر سٹوڈینٹس کو مسلسل گمراہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔

میشل فوکو جیسے آلہء کاروں کے توسط سے "علم طاقت کا رشتہ" جیسے نظریات کو فروغ دے کر تمام علوم کو طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بتایا گیا اور علم کی غیرجانبدار حیثیت ختم کر دی گئی۔ اسی طرح سائنسی حقائق کو بھی مغربی استعمار کا ہتھیار بنا لیا گیا۔

جس مابعد جدیدیت کے ہمارے جاہل مدرسین اور معصوم طلبا گُن گاتے تھکتے نہیں آخر کیوں نہیں دیکھتے کہ کس طرح ان شیطانی تھیوریوں کے باعث فنون لطیفہ کو بامقصد اظہار کی بجائے تجریدی اور بے معنی شکلوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اردو کے بےپناہ تخلیقی شاعر اور صاحب نظریہ دانشور ڈاکٹر ابرار عمر نے جس طرح اسلام آباد میں جدید نظم کے نام پر کیے جانے والے جرائم کو بےنقاب کیا ہے اسے اردو ادب کی اصلی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جدیدیت، مابعد جدیدیت کے سانپ گلے میں لپیٹ کے پھرنے والے اتنے بےحس اور بےضمیر ہیں کہ سوچتے ہی نہیں کہ اس سے انسانی نسلوں کو جانوروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس پر ڈی کنسٹرکشن نامی پوشیدہ بچھو کے نام پر ادب اور آرٹ کی ہر تعبیر کو غلط ثابت کرکے مارنے کی بھیانک کوشش کی طرف اہل دانش کی توجہ مبذول نہ ہونا بھی میرے جیسوں کے لیے نہایت تکلیف دہ ہے۔

نسبیتی تھیوریوں نے تعلیمی اداروں، مترجمین اور ماڈرنزم کے مارے کمزور فکر انسانوں کے زریعے معاشرے میں نیکی، بدی، صحیح، غلط کی تمیز مٹا کے رکھ دی ہے۔

اور دوسری طرف سچ بولنے والوں کے تمام نظریات کو بیانیہ قرار دے کر علمی، فکری اور سیاسی عمل کو بے مقصد بنا ڈالا گیا ہے۔ اب جہاں بھی کوئی مظلوم، کمزور اور استحصال کے مارے عوام کے حقوق کی بات کرتا ہے تو بیانیہ کہہ کر اس کی سچائی کو دھندلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یقین کریں کہ جن قوتوں نے ان شیطانی تھیوریوں کو جنم دیا ہے وہ مظلوم کی جگہ جعلی مظلوم پیدا کرکے بات اپنی طرف آنے سے روک دیتے ہیں یا پھر لیڈرز خرید اور بدل دیے جاتے ہیں یا انہیں ڈرا دھمکا کے یا پھر جیلوں میں ڈال کے یا مار کے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

اس تمام بحث کا مقصد آپ کو یہ بتانا ہے کہ مابعد جدیدیت نے جدیدیت کی نام نہاد آزادی کو ایک نئے فکری جبر میں بدل دیا ہے، جہاں انسان ہر قسم کی سچائی، اخلاقیات اور معنویت سے محروم ہو کر وجودی بحران کا شکار ہوگیا ہے اور اس کا علاج صرف تجزیاتی فکر، متوازن تنقیدی سوچ، مذہبی اصولوں کی تجدید، تہذیبی اقدار کا احیاء اور اخلاقی تعمیر نو میں پنہاں ہے۔

(زیرِ طبع کتاب فلسفہء ادراک میں شامل ایک مضمون)۔