1. ہوم
  2. کالمز
  3. فرحت عباس شاہ
  4. فیلڈ مارشل صدر پاکستان، دوٹوک وضاحت

فیلڈ مارشل صدر پاکستان، دوٹوک وضاحت

پاکستان کی حالیہ عسکری اور سیاسی فضا میں چند ہفتوں سے جو افواہوں کا گرداب گہرے بادلوں کی طرح منڈلا رہا تھا، اس کا مرکز ایک ہی شخصیت تھی: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر۔ ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر یہ جھوٹا پروپیگنڈا شدت سے پھیلایا جا رہا تھا کہ وہ جلد ہی پاکستان کے صدر بننے جا رہے ہیں۔ اس سیاسی افواہ نے نہ صرف عوامی حلقوں میں بے چینی پیدا کی بلکہ ملکی و بین الاقوامی مبصرین کو بھی الجھا دیا۔ لیکن اس تمام پراپیگنڈا مہم کا مقصد صرف کنفیوڑن پیدا کرنا نہیں تھا۔ اس کے پیچھے ایک گہری اور سوچی سمجھی سازش کارفرما تھی، جو پاکستان کو اندرونی طور پر غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کرنے اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کی تیاریوں میں خلل ڈالنے کی کوشش تھی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں نہایت اہم اور تاریخی گفتگو کی۔ انٹرویو کا بنیادی محور وہی افواہیں تھیں جنہیں سوشل میڈیا پر ایک مخصوص نیٹ ورک کے ذریعے بڑی چالاکی سے پھیلایا گیا۔ انہوں نے ان افواہوں کو "بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی" قرار دیا اور ان کے پھیلاؤ کی ذمہ داری بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" پر عائد کی۔

یہ بات نئی نہیں کہ "را" پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مختلف حربے آزماتی رہی ہے، لیکن اس بار اس نے افواہوں کی شکل میں عسکری قیادت کو متنازعہ بنانے کی جس طرح کوشش کی، وہ نہایت سنگین نوعیت کی تھی۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، جو اس وقت پاکستان کی مسلح افواج کے اعلیٰ ترین اور غیر متنازعہ سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی ذات کو سیاسی رنگ دینا اور انہیں صدارت جیسے آئینی عہدے سے جوڑ کر عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرنا، دراصل فوج اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والے بھروسے کو نقصان پہنچانے کی ایک چال تھی۔

یہ چال صرف اس لیے نہیں تھی کہ کسی فوجی کو سیاست میں لانے کا تصور پھیلایا جائے، بلکہ اس لیے بھی کہ اندرون ملک سازشی ذہنوں کو تقویت دی جائے جو ہر قومی ادارے کو مشکوک بنانے کے درپے رہتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان ان افواہوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ ان کے الفاظ میں جو قطعیت اور واضح پیغام تھا، اس نے قوم کو سکون بخشا۔ انہوں نے نہ صرف ان جھوٹی خبروں کی تردید کی بلکہ ان کے ماخذ کی بھی نشاندہی کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ "فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے بارے میں پاکستان کا صدر بننے کی باتیں مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔ "

مزید برآں، انٹرویو میں جب بھارت کی ممکنہ فوجی کارروائیوں کے تناظر میں پاکستان کے دفاعی ردعمل کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا جواب غیر معمولی تھا، بلکہ ایک نئے عہد کی ابتدا سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کے الفاظ تھے: "ہم اس بار ہندوستان کے مشرق سے آغاز کریں گے"، یہ ایک واضح پیغام تھا، ایک سخت انتباہ تھا اور ایک نئی حکمتِ عملی کا اشارہ تھا۔ اس جواب میں صرف دفاع کا عنصر نہیں تھا، بلکہ ایک بھرپور، مربوط اور دور رس جوابی کارروائی کا عندیہ بھی موجود تھا۔

پاکستان نے یہ اعلان کرکے واضح کر دیا کہ اب دفاع صرف اپنی حدود تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ جارحیت کی صورت میں دشمن کی سرزمین پر بھی کاری ضرب لگائی جائے گی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان کے پس منظر میں حالیہ بھارتی عسکری تیاریاں، لائن آف کنٹرول پر غیر معمولی نقل و حرکت اور سیاسی قیادت کی جارحانہ زبان شامل ہے۔ بھارت میں انتہاپسند عناصر جس طرح سے خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں، ان کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے: دو ٹوک، عملی اور جامع۔ پاکستان کی عسکری قیادت اس وقت صرف سرحدی دفاع نہیں کر رہی، بلکہ قومی بیانیے کو عالمی فورمز پر بھی مضبوطی سے پیش کر رہی ہے۔

بھارت کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ پاکستان محض زبانی دعوے نہیں کرتا۔ ہم نے ہمیشہ عمل سے جواب دیا ہے، چاہے وہ 1965ء کی جنگ ہو، 1999ء کی کارگل کی مہم ہو یا حالیہ دہشتگردی کے خلاف طویل جدوجہد۔ پاکستانی افواج صرف میدان جنگ میں نہیں، نظریاتی اور سفارتی محاذوں پر بھی صف اول میں کھڑی ہوتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ واضح کرکے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے: کہ بھارت کو اب صرف سرحد پر روکنے کی حکمتِ عملی کافی نہیں، اسے ہر سطح پر روکا جائے گا۔ "بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کو ہر جگہ پہنچ کر مارا جا سکتا ہے"۔

یہ بیان نہ صرف عسکری حکمت عملی کا اشارہ ہے، بلکہ اس بات کی عکاسی بھی کرتا ہے کہ پاکستان اب جارحیت پر مبنی سوچ رکھنے والے ہمسایوں کے لیے ایک نیا بیانیہ تخلیق کر چکا ہے، ایسا بیانیہ جس میں نرمی کی جگہ نہیں اور جوابی اقدام کو ایک مستقل پالیسی کے طور پر اختیار کیا جا چکا ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے نازک حالات میں اپنی سوچ اور عمل میں احتیاط برتیں۔

جب بھی کوئی خبر آئے، خاص کر ایسی خبر جس کا تعلق ریاستی اداروں یا قومی قیادت سے ہو، تو اس کی تصدیق کیے بغیر اسے پھیلانا نہ صرف ملک دشمنی کے مترادف ہے، بلکہ دشمن کی سازشوں کو کامیاب بنانے کے مترادف ہے۔ "را" جیسے ادارے صرف ہتھیاروں سے جنگ نہیں کرتے، وہ ذہنوں میں شکوک ڈال کر، دلوں میں نفرت بو کر اور افواہوں کے ذریعے اداروں کو متنازعہ بنا کر اپنی جنگ جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کی چالوں کو سمجھ کر رد کریں گے، تبھی ان کا ایجنڈا ناکام ہوگا۔ یہ لمحہ تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس انٹرویو نے ایک طرف دشمن کو خبردار کیا ہے، تو دوسری طرف قوم کو اتحاد، اعتماد اور بصیرت کی دعوت دی ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ فوج اور عوام کا رشتہ محض ایک ادارہ جاتی تعلق نہیں، بلکہ یہ اعتماد، قربانی اور حب الوطنی پر مبنی ہے۔ جب دشمن اس رشتے کو توڑنے کی کوشش کرے، تو ہمیں اور زیادہ مضبوطی سے جڑ جانا چاہیے۔ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ افواہوں کے شور میں گم ہونے والا ملک نہیں اور نہ ہی وہ دشمن کی سازشوں کا شکار ہونے والی قوم ہے۔

فوج کی قیادت باوقار ہے، متحد ہے اور قومی سلامتی کے دفاع کے لیے ہر دم تیار ہے۔ افواہوں کا زہر پھیلانے والوں کو ایک بار پھر شکست ہوئی ہے اور سچائی کی روشنی نے اس اندھیرے کو چیر کر رکھ دیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بطور قوم ہم دشمن کو واضح پیغام دیں: نہ تمہارے پراپیگنڈے سے ہمیں فرق پڑے گا، نہ تمہاری جارحیت سے۔ پاکستان زندہ ہے، بیدار ہے اور ہر محاذ پر تیار ہے۔