1. ہوم
  2. کالمز
  3. فرحت عباس شاہ
  4. وزیرتعلیم کی علم سے دوری کا المیہ

وزیرتعلیم کی علم سے دوری کا المیہ

میں ایک عرصے سے ہمارے نظام تعلیم کے فیک اور علم دشمن ڈیزائن پر ہونے کی بات کرتا آ رہا ہوں۔ میری آج کی یہ تحریر ایک ایسے واقعے سے متاثر ہو کر وجود میں آئی ہے جو سرسری نظر سے معمولی محسوس ہو سکتا ہے لیکن اس کی گہرائی میں ہماری اجتماعی سوچ، تعلیمی اداروں اور اخلاقی ذمہ داری کے زوال کے واضح نقوش دکھائی دے رہے ہیں۔ جب پنجاب کے وزیر تعلیم نے ایک عوامی اجتماع میں انتہائی اعتماد کے ساتھ ایک شعر کو علامہ محمد اقبال کا کلام قرار دیا اور اسے اپنا مرغوب ترین شعر بتایا، تو یہ علم یا حافظے کی معمولی سہو نہیں رہا۔ جب اس کی نسبت ہی غلط ثابت ہوگئی تو بے بحر ہونا یا اوزان سے باہر ہونے کا تو معاملہ ہی پس پشت رہ گیا۔

سماجی میڈیا پر اس کا مذاق اڑایا گیا، تو یہ واقعہ ایک علامتی حیثیت اختیار کر گیا۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہمارے تعلیمی نظام میں علم، تحقیق اور جوابدہی کے گرتے ہوئے معیارات کی تصویر صاف دکھائی دیتی ہے۔ زیر بحث شعر کچھ یوں ہے۔۔

داغِ سجود اگر تیری پیشانی پہ ہوا تو کیا

کوئی ایسا سجدہ بھی کرکے زمین پہ نشان رہے

یہ شعر علامہ اقبال کے کسی مستند یا تنقیدی نظر سے مرتب شدہ دیوان یعنی بانگِ درا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم، یا ارمغانِ حجاز میں موجود نہیں ہے۔ اقبالیات کے ماہرین بارہا اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ شعر ان کے کلام کا حصہ نہیں۔ پھر بھی ایک صوبائی وزیر تعلیم نے عوام کے سامنے بلا تردد اسے اقبال کی فکرکے طور پر پیش کر دیا۔

حقیقی سوال شعر کی اصل کے بارے میں نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ایسی فکری بے احتیاطی کیسے اس مقام تک پہنچ گئی کہ اسے ایک عہدے کی طاقت سے اتنی خود اعتمادی کے ساتھ پیش کیا گیا؟ اور کیوں اس غلطی کو اصلاح کے لیے اداروں کی بجائے سماجی میڈیا کی طنز و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا؟

تعلیم فقط محکمہ جاتی نظام نہیں بلکہ ایک تہذیبی ذمہ داری کا نام ہے۔ وزیر تعلیم صرف اسکولوں اور بجٹ کا منتظم ہی نہیں ہوتا، وہ فکری اقدار کا علامتی نگراں بھی ہوتا ہے۔ جب ایسا عہدیدار تحقیق، حوالہ جات اور علمی احتیاط سے بے اعتنائی برتتا ہے تو نقصان صرف ایک تقریب تک محدود نہیں رہتا۔ یہ عمل پورے نظام کے لیے ایک خطرناک پیغام بن جاتا ہے کہ درستی سے زیادہ اعتماد اور تحقیق سے زیادہ خطابت اہم ہے۔ ایک کلاس روم میں استاد کی غلطی کو انسانی کمزوری سمجھ کر معاف کیا جا سکتا ہے، لیکن جب وزیر تعلیم سے عوامی پلیٹ فارم پر یہی غلطی سرزد ہوتی ہے تو یہ اداراتی ناکامی کہلاتی ہے۔ اختیار غلطی کو بڑھا دیتا ہے۔ عہدہ جتنا بلند ہو، لاعلمی اتنی ہی خطرناک ہو جاتی ہے۔

یہ واقعہ ہمیں اپنے تعلیمی نظم و نسق کی وسیع تر صورت حال پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے اداروں کی فکری رہنمائی کن ہاتھوں میں ہے؟ کیا یہ افراد علمی نظم و ضبط سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں یا سیاسی مصلحت کے پروردہ ہیں؟ ہمارے ہاں ڈگری کو علم، عہدے کو قابلیت اور فصاحت کو فضیلت سمجھ لیا جاتا ہے۔ تحقیق کو ایک تعیش اور تنقیدی سوال کو گستاخی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کا نام محض ایک علامتی مہر بن کر رہ گیا ہے جسے کسی بھی خیال کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بات اخلاقی طور پر معاون لگے تو اسے اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اگر کسی نعرے کو وزن درکار ہو تو اقبال کو بلا لیا جاتا ہے۔ اس روش نے نہ صرف اقبال کی فکری میراث کو مسخ کیا ہے بلکہ کئی نسلوں کو یہ سکھا دیا ہے کہ حوالہ دینے کے لیے ثبوت کی ضرورت نہیں۔ جب خود وزیر تعلیم اس عادت کو ہوا دیتا ہے تو یہ سب سے اعلیٰ سطح پر معمول کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔

اس واقعے پر سماجی میڈیا کے ردعمل سے بھی کئی حقائق عیاں ہوتے ہیں۔ ہنسی، طنز اور تمسخر محض سیاسی مخالفت یا ذاتی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں تھے۔ یہ اجتماعی مایوسی کی علامات ہیں۔ لوگ اس لیے نہیں ہنسے کہ انہیں یہ واقعہ مضحکہ خیز لگا، بلکہ اس لیے ہنسے کہ یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ نااہلی اب ہمارے لیے حیرت کا سبب نہیں رہی، بلکہ تفریح کا ذریعہ بن گئی ہے۔ غلطی سے کہیں زیادہ تشویشناک معاملہ جوابدہی کا فقدان ہے۔ وزارت کی جانب سے کوئی علمی وضاحت نہیں آئی، نہ ہی کوتاہی کا اعتراف ہوا، نہ ہی علمی عاجزی کے ساتھ کوئی ترمیمی بیان جاری کیا گیا۔ یہ خاموشی ایک گہرے سچ کی عکاس ہے کہ علم نے عوامی زندگی میں اپنی تقدیس کھو دی ہے۔ تعلیم صرف ایک آرائشی پورٹ فولیو بن کر رہ گئی ہے جو تقاریر اور نعروں کے لیے تو کارآمد ہے لیکن اصل پالیسی سازی کے لیے غیر متعلق۔

تعلیمی زوال کا ذمہ صرف افراد پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ مسلسل ساختی بوسیدگی کا نتیجہ ہے: میرٹ کا خاتمہ، سیاسی تقرریاں، فنڈز سے محروم تحقیقی ادارے، متروک کتب خانے، نااہل اساتذہ اور وہ نصاب جو تجسس کی بجائے نوکری پیشہ ذہنیت پیدا کرنے کے لیے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ جب تحقیق کا بجٹ سب سے پہلے کاٹا جاتا ہے، جب کتب خانوں کو بھلایا جاتا ہے اور جب اختیار پر سوال اٹھانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تو طاقت کے سائے میں جہالت پھلتی پھولتی ہے۔ لہٰذا وزارتی نااہلی کوئی الگ تھلگ خرابی نہیں، بلکہ ایک علامت ہے۔ یہ اس نظام کو بے نقاب کرتی ہے جہاں ماہرین کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور وفاداری کو انعام دیا جاتا ہے، جہاں حقیقی اہل دانش کو کبھی کبھار تقریبات میں تو بلایا جاتا ہے لیکن فیصلہ سازی سے ہمیشہ دور رکھا جاتا ہے۔ فعال معاشروں میں پالیسی ساز دانشوروں سے رہنمائی لی جاتی ہے۔ زوال پذیر معاشروں میں دانشوروں کی جگہ نمائشی شخصیات کو بٹھا دیا جاتا ہے اور فیصلے علم سے کٹے ہوئے افراد کرتے ہیں۔

ہماری اجتماعی بدقسمتی اس امر سے اور بھی گہری ہو جاتی ہے کہ ہم اختیار پر سوال اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ عہدیداروں کو جوابدہ ٹھہرانے کی بجائے ہم شخصیات کے دفاع میں کود پڑتے ہیں۔ غلطیوں کو معمولی سہو قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور تنقید کو مخالفت کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن جب تعلیم کے محافظوں سے پوچھ گچھ نہیں کی جاتی تو تعلیم خود بے بس ہو کر رہ جاتی ہے۔

یہ تحریر کسی فرد پر حملہ نہیں بلکہ ایک ذہنیت پر تنقید ہے۔ ایسی ذہنیت جو خود اعتمادی کو علم کا متبادل، آواز کے بلند ہونے کو ثبوت کا قائم مقام اور عہدے کو قابلیت کی کسوٹی سمجھتی ہے۔ حقیقی علم کی ابتدا عاجزی سے ہوتی ہے، اس اعتراف سے کہ کسی بات کو تسلیم کرنے سے پہلے تحقیق ضروری ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ پہلے ہی سب کچھ جانتا ہے، درحقیقت وہ کچھ جاننے سے رک جاتا ہے۔ اگر تعلیمی اصلاح مطلوب ہے تو پہلا قدم علم کے احترام کی بحالی ہونا چاہیے۔ خواہ وزیر ہو یا طالب علم، استاد ہو یا پالیسی ساز، ہر کسی کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بغیر تحقیق کے بولنا، بغیر حوالہ کے منسوب کرنا اور بغیر جائزہ کے بات کہنا فکری زیادتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اقبال خود بھی اندھی تقلید اور بے سوچے سمجھے تکرار کے خلاف آواز اٹھاتے رہے، لیکن ان کی اس تنبیہ کو بھی بغیر کسی شناخت کے دہرایا جاتا ہے۔ آخری سوال یہی ہے کہ کیا ہم اس عوامی شرمندگی سے کوئی سبق سیکھیں گے؟ کیا یہ ہمارے تعلیمی اداروں کی قیادت اور ان کے معیارات پر نظرثانی کا سبب بنے گا؟ یا یہ بھی روزمرہ کی جھڑپوں کے شور میں گم ہو جائے گا، جس کی جگہ جلد ہی کوئی اور فراموش شدہ اشتعال لے لے گا؟ اگر ہم تعلیم کو ایک بنیادی ترجیح کی بجائے محض ایک رسمی زیور سمجھتے رہے تو غلط منسوب اشعار ہماری پریشانیوں کا سب سے چھوٹا مسئلہ رہیں گے۔ وہ قوم جو اصلی علم اور مستعار بیانیے میں فرق نہیں کر سکتی، وہ اپنا فکری مستقبل خود نہیں ترتیب دے سکتی اور جب تعلیم کے امین میں خود علم نہ ہو اور اسے حاصل کرنے کی عاجزی بھی نہ ہو تو زوال کوئی حادثہ نہیں، بلکہ ایک ناگزیر انجام ہے۔