1. ہوم
  2. غزل
  3. فرحت عباس شاہ
  4. ہر کسی کو بڑا معصُوم نظر آتا ہے

ہر کسی کو بڑا معصُوم نظر آتا ہے

ہر کسی کو بڑا معصُوم نظر آتا ہے
تو وہ ظالم ہے جو مظُلوم نظر آتا ہے

رکھ رکھاٶ جو اجاگر کبھی ہوتا تھا یہاں
مجھ کو اس شہر میں معدُوم نظر آتا ہے

ڈھونڈتا پھرتا ہے کیوں جنس بدلنے کا جواز
وہ جو نابینے کو بھی تھوُم نظر آتا ہے

اگلے ہی سال دکھائی نہیں دیتی کہیں بھی
جس برینڈنگ میں بڑا بُوم نظر آتا ہے

جس سے تم کو ہیں سخاوت کی امیدیں یارو
وہ بہت دور سے بھی شُوم نظر آتا ہے

کیا سنائی بھلا کچھ قبر میں دیتا ہے بتا
کیا کہیں، کچھ۔۔ مرے مرحوم، نظر اتا ہے؟

اس لیے ہٹتی نہیں ہیں مری نظریں اِن سے
مجھ کو اِن آنکھوں میں مقسُوم نظر آتا ہے

آنکھ بینائی سے محروم ہوئی ہے تو کیا
جھوم اے دیدہء دل، جھوم، نظر آتا ہے

ہے کوئی نُور کا ہالا جو بہت اچھی طرح
عرش کی جالیوں کو چُوم، نظر آتا ہے

بڑھ کے سینے سے لگا لیتا ہوں فرحت اس کو
جو مجھے پیار سے محرُوم نظر آتا ہے

(احمد نوید کی زمین میں)