بھوک انسان کا کردار بدل دیتی ہے
سر وہی رہتا ہے دیوار بدل دیتی ہے
وہ بھی سرکار ہی ہے جو کسی وقفے کے بغیر
جب ضرورت پڑے سرکار بدل دیتی ہے
روح کا رشتہ بھی ہوتا ہے، ہوا ہے ثابت
وہ مرا سوچ کے، رفتار بدل دیتی ہے
شامِ گریہ مرے اوہام تلک روزانہ
جاتے جاتے ہوئے دوچار بدل دیتی ہے
دکھ میں بھی لوگ بدل جاتے ہیں موسم کی طرح
اور غریبی بھی کئی یار بدل دیتی ہے
آشیانے کو بسانے کا اگر سوچتا ہوں
بدنصیبی در و دیوار بدل دیتی ہے
موت بڑھتی ہے مری سمت مقدر بن کر
زندگی جب مرے آثار بدل دیتی ہے
یہ فقط دل ہی نہیں ہے کہ میں الزام دھروں
زندگی بھی تو سروکار بدل دیتی ہے
ہاں مگر اس کے لیے شرط ہے شاعر ہونا
شاعری صیغہء اظہار بدل دیتی ہے