1. ہوم
  2. کالمز
  3. فرحت عباس شاہ
  4. اسرائیل ایران جنگ کا منظرنامہ

اسرائیل ایران جنگ کا منظرنامہ

غزہ، کشمیر، روس یوکرین، شام، لیبیا، عراق، افغانستان اور اب جاری اسرائیل ایران جنگ کی صورتحال ان سب کا مہذب دنیا کے تصور کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو ذہن میں جو سب سے پہلی ناکامی اجاگر ہوتی ہے وہ اقوام متحدہ کی ہے۔ دنیا کے بڑے اور طاقتور ممالک کے ہاتھوں مسلسل بے توقیر ہونے والے اس ادارے کی حیثیت کسی کانفرنس ہال سے زیادہ نہیں رہ گئی جہاں جو بھی فیصلہ کر دیا جائے اس کی حیثیت خود رکن ممالک ہی تسلیم نہیں کرتے۔ کشمیر پر قراردادیں ہوں یا غزہ کے معصوم عوام کا قتل عام، اقوام متحدہ کے ہونے پر اتنے بڑے سوالیہ نشان ہیں جن کا جواب سوائے ناکامی اور غیر فعالیت کے اعتراف کے دیا ہی نہیں جاسکتا اور اب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں سب سے زیادہ حساس اور تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے۔

یہ محض دو ممالک کے درمیان جھگڑا نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سلامتی، عالمی معیشت اور بین الاقوامی استحکام کے لیے ایک واضح خطرہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست جس تصادم کا خدشہ دن بدن بڑھ رہا تھا اب جنگ کے آغاز کی صورت میں سچ ثابت ہو چکا ہے، حالانکہ اب سے پہلے تک یہ کشمکش زیادہ تر پراکسی جنگ کی صورت میں رہی ہے جہاں ایران اپنے حلیف گروہوں جیسے کہ حزب اللہ، حماس اور یمن کے حوثیوں کو اسرائیل کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے اور اسرائیل ایران کی سرزمین پر جاسوسی اور فوجی اہداف پر حملے کرتا رہا ہے۔ اس کشیدگی کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے تاریخی پس منظر، موجودہ محرکات اور ممکنہ مستقبل پر گہری نظر ڈالنی ہوگی۔

تاریخ میں جھانکیں تو ایران اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ نہیں تھے۔ ایران کی شاہی حکومت کے دور میں، جب ایران مغربی اثرات کے زیر سایہ تھا، دونوں ممالک کے درمیان نسبتاً خوشگوار اور تعاون پر مبنی تعلقات تھے۔ دونوں ریاستیں خطے میں مشترکہ مفادات کی حامل سمجھی جاتی تھیں۔ تاہم 1979 کے اسلامی انقلاب نے ایران کے خارجہ پالیسی کے محور کو یکسر تبدیل کر دیا۔ نئی حکومت نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اس کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ اسرائیل مخالف جذبات اور "صیہونی وجود" کے خلاف جدوجہد بن گیا۔

اسرائیل نے بھی ایران کو اپنی سلامتی کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کیا، خاص طور پر جب ایران نے جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوششیں تیز کیں۔ حالانکہ جوہری مسئلہ محض ایک بین مذاق اور طنز سے زیادہ کچھ نہیں رہ گیا۔ ابھی چند دن پہلے جب ایران نے اسرائیل کے ایٹمی پروگرام بارے عالمی جوہری ادارے کی کچھ معلومات لیک کیں تو ادارے کے پاس اسرائیل کے پروگرام پر خاموشی اور ایران پر معلومات چوری کرنے کے الزام کے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک تاریخی تضاد (Irony) یہ بھی ہے کہ ایٹمی حملے کے حوالے سے دنیا میں سب سے زیادہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والا ملک اپنی طاقت کے نشے میں اچھل اچھل کے دوسرے ملکوں پر پابندیاں لگاتا پھرتا ہے۔

یہی جوہری مسئلہ اسرائیل، ایران کشیدگی کا مرکزی نقطہ بتایا جا رہا ہے حالانکہ اسلحہ فروش جنگوں کو کاروباری سیزن کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور مارکیٹ کے اتار چڑھاٶ سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ نظر آتے ہیں۔ جبکہ جو میدان بظاہر سج چکا ہے اس کے مطابق دنیا کو تیسری بڑی جنگ کے منہ میں دھکیلنے کی کوشش اس لیے کی جا رہی ہے کیونکہ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنی بقا کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو خطے میں طاقت کا توازن یکسر بگاڑ دے گا اور اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال دے گا۔

یہ طاقت کا توازن بھی ایک زبردست مزاحیہ بات ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ملک کو طاقت کے توازن کے لیے زیادہ سے زیادہ خطرناک اسلحے کی پروڈکشن یا خریداری کا حق ہے جو دوسرے ملک کو بالکل حاصل نہیں ہے۔ اسرائیل کے علی الاعلان جنگ کے لیے ایٹمی ہتھیار رکھنے پر خاموشی اختیار کرنے والے ممالک اور ادارے ایران کو مسلسل دباٶ میں رکھے ہوئے ہیں۔ ایران مسلسل یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور یہ توانائی کی ضروریات اور طبی تحقیق تک محدود ہے۔ تاہم بین الاقوامی معائنہ کاروں کو بار بار ایران کی طرف سے تعاون نہ کرنے اور خفیہ سہولیات چلانے کا سامنا رہا ہے، جس نے عالمی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔

2015 کے جوہری معاہدے (جوائنٹ کامپریہینسیو پلان آف ایکشن - JCPOA) نے ایک عارضی سکون کی فضا قائم کی تھی جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی تھیں اور بدلے میں اقتصادی پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔ لیکن 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو جانا اور پابندیوں کو دوبارہ عائد کرنا، ایک بار پھر بحران کا باعث بنا۔ ایران نے بھی رفتہ رفتہ معاہدے کی شرائط سے منحرف ہونا شروع کر دیا، جس سے جوہری بحران دوبارہ سر اٹھانے لگا۔ یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل اور غزہ کے معاملے پر اسرائیل کی واشگاف حمائت ساری دنیا کے سامنے ہے۔

ایران کی علاقائی پالیسی اسرائیل کے موجودہ حملوں کی ایک اہم وجہ قرار دی جارہی ہے۔ ایران نے شام میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے، لبنان میں حزب اللہ کی حمایت جاری رکھنے، غزہ میں حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کو مالی اور فوجی امداد فراہم کرنے اور یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اسرائیل ان تمام گروہوں کو ایران کے ہتھیار کے طور پر دیکھتا ہے جو ایران کو براہ راست جنگ میں الجھے بغیر اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر حزب اللہ، جو لبنان میں ایک طاقتور سیاسی اور عسکری قوت ہے، کے پاس ہزاروں راکٹ اور میزائل ہیں جو اسرائیل کے بیشتر شہروں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ یہ ہتھیار ایران ہی فراہم کرتا ہے اور یہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ ہیں۔ اسرائیل نے وقتاً فوقتاً شام میں ایران سے وابستہ فوجی اہداف پر فضائی حملے کیے ہیں تاکہ ایران کو حزب اللہ اور دیگر گروہوں کو جدید ہتھیار فراہم کرنے سے روکا جا سکے، جبکہ ایران ان حملوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔

حالیہ برسوں میں کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2020 میں ایران کے ممتاز فوجی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی ڈرون حملے میں بغداد میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ حملہ امریکہ نے کیا تھا، لیکن اسرائیل کو ایران کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایران نے بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی۔ اس کے بعد سے ایران سے وابستہ گروہوں اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں بڑھ گئی تھیں۔ اسرائیل کو ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سائنسدانوں، فوجی کمانڈرز اور سہولیات کو نشانہ بنانے پر مشتبہ حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔

2023 کے آخر میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے صورتحال اور بھی سنگین ہوگئی ہے۔ حماس، جسے ایران کی کسی حد تک حمایت حاصل ہے، کے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ میں شدید فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ ایران نے غزہ میں فلسطینیوں کے حق میں زوردار آواز اٹھائی ہے اور اسرائیل کو خطے سے نکالنے کی بات کی۔ اس دوران لبنان کی سرحد پر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر جھڑپیں ہو رہی ہیں، جس سے شمالی اسرائیل کے ہزاروں شہریوں کو گھر چھوڑنا پڑا ہے۔ ایران حزب اللہ کو کھلم کھلا سیاسی اور ممکنہ طور پر فوجی حمایت فراہم کر رہا ہے۔ یمن میں حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں اسرائیل سے وابستہ جہازوں یا اسرائیل جانے والے جہازوں کو نشانہ بنانا جاری رکھا ہوا ہے۔ جس پر اسرائیل اور امریکہ کو کافی پریشانی کا سامنا ہے۔

اپریل 2024 میں تنازعہ ایک نئے اور انتہائی خطرناک موڑ پر پہنچ گیا جب ایران نے پہلی بار اپنی سرزمین سے براہ راست اسرائیل پر سینکڑوں میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ کیا۔ یہ حملہ ایران کے دعوے کے مطابق اسرائیل کی طرف سے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر بمباری کے جواب میں تھا جس میں ایران کے فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی نوعیت تاریخی تھی کیونکہ اس نے ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست فوجی تصادم کی سرحد کو عبور کر لیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے ایران کے صوبہ اصفہان میں ایک محدود جوابی حملہ کیا، جسے جان بوجھ کر کم شدت کا رکھا گیا لیکن یہ پیغام دینے کے لیے کافی تھا کہ اسرائیل ایران کی سرزمین پر براہ راست حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

13 جون کی رات اسرائیل کی طرف سے کیے جانے والے میزائیل اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اہم شخصیات کی شہادتوں جیسی براہ راست جنگ کے نتائج ناقابل تصور حد تک تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ پہلا اور سب سے واضح خطرہ یہ ہے کہ یہ جنگ محض دو ممالک تک محدود نہیں رہے گی۔ ایران اپنے متعدد پراکسی گروہوں کو پورے خطے میں متحرک کر سکتا ہے۔ حزب اللہ لبنان سے اسرائیل پر ہزاروں میزائل برسا سکتا ہے، جو اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم کے لیے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ یمن سے حوثی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بحری جہازوں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، جس سے عالمی تجارت اور تیل کی سپلائی شدید متاثر ہوگی۔ عراق اور شام میں ایران نواز ملیشیا اسرائیل یا اس کے اتحادیوں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہیں۔ غزہ میں حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد مزید سرگرم ہو سکتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ پورا مشرق وسطیٰ ایک وسیع آتش فشاں میں بدل سکتا ہے۔

دوسرا بڑا خطرہ عالمی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا ہے۔ مشرق وسطیٰ دنیا کے تیل کے ذخائر کا ایک اہم مرکز ہے۔ ایران اگر خلیج فارس اور بالخصوص آبنائے ہرمز کو بند کرنے یا اسے خطرے میں ڈالنے کی کوشش کرے، جہاں سے دنیا کے تیل کا ایک بہت بڑا حصہ گزرتا ہے، تو عالمی تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔ یہ اضافہ دنیا بھر میں مہنگائی کو ہوا دے گا، ترقی پذیر ممالک کو معاشی دباؤ کا شکار بنا سکتا ہے اور عالمی معاشی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے فوجی دستوں کی تعیناتی اور انشورنس اخراجات میں اضافہ بھی تجارت کو مہنگا کر دے گا۔

تیسرا اور سب سے خوفناک امکان جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا ہے۔ اگرچہ اس وقت ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، لیکن وہ انہیں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر جنگ شروع ہو جائے تو ایران اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر سکتا ہے۔ اسرائیل، جو خود کو جوہری طاقت سمجھا جاتا ہے، ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے انتہائی اقدامات پر غور کر سکتا ہے، جس میں ممکنہ طور پر جوہری ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل ہو سکتا ہے اگر اسے اپنی بقا کا خطرہ محسوس ہو۔ ایسی صورت حال میں جوہری جنگ کا خدشہ، جو کبھی ناقابل تصور تھا، ایک حقیقی خطرہ بن سکتا ہے جس کے نتائج پوری انسانیت کے لیے تباہ کن ہوں گے۔

بین الاقوامی ردعمل اور سفارت کاری بھی اس بحران کا ایک اہم پہلو ہے۔ امریکہ اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے اور اسرائیل کو سالانہ اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔ امریکہ نے ایران کے اپریل کے حملے کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کی تھی۔ تاہم امریکہ ایک وسیع علاقائی جنگ میں ملوث ہونے سے گریزاں ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اسرائیل کو ایران کے خلاف جوابی حملے میں اعتدال برتنے کی تلقین کی تھی اور ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے کے ردعمل میں بھی امریکی صدر نے یہی کہا ہے کہ امریکہ کی ساری توجہ اپنے فوجیوں کی حفاظت پر ہے۔ امریکہ اس معاملے میں بظاہر کچھ احتیاط پر مجبور ہے کہ اسے ایران اور چین کے معاشی تعلقات اور علاقائی روابط کا پوری طرح اندازہ ہے۔ دوسری طرف اگرچہ یورپی ممالک تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور دونوں فریقوں سے تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس تنازع کو حل کرنے کے لیے محدود اثر و رسوخ ہے۔

خلیجی عرب ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایران کے علاقائی عزائم سے خوش نہیں لیکن وہ ایک ایسی جنگ بھی نہیں چاہتے جو ان کی معیشتوں کو تباہ کر دے اور انہیں لپیٹ میں لے لے۔ اسی خدشے کے پیش نظر محمد بن سلمان ایران کے ساتھ تعلقات میں بہت بہتری لا کر خطے کو پرامن رکھنے کے سلسلے میں بہت شاندار قائدانہ صلاحیت کا ظاہر کر چکے ہیں۔ ادھر ریجنل ڈویلپمینٹ کی اہمیت کو مدنظر رکھا جانا بھی بہت ضروری ہے۔ روس اور چین ایران کے قریبی ساتھی ہیں، روس خصوصاً شام میں ایران کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ یہ دونوں ممالک ایران کے حامی ہیں لیکن وہ بھی ایک بڑی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں جو عالمی استحکام کو متاثر کرے۔ ان ممالک کی جانب سے سفارتی کوششیں جاری ہیں لیکن اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نظر نہیں آتی۔

پاکستان اور دیگر قریبی ممالک کے لیے بھی اس جنگ کے گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے سلامتی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں، خاص طور پر اگر ایران اور اسرائیل کی کشیدگی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے تو بھارت اس سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے خلاف پہلے سے جاری دہشت گردی میں شدت لا سکتا ہے۔ پاکستان کے مغربی سرحد ایران سے ملتی ہے اور مشرقی سرحد پر بھارت کے ساتھ کشیدگی موجود ہے۔ خطے میں عدم استحکام پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک اضافی چیلنج ہوگا۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔

عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور ممکنہ تجارتی رکاوٹیں پاکستان جیسے درآمد کنندہ ممالک کو شدید متاثر کر سکتی ہیں، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ بھارت اور اسرائیل پاکستان میں شیعہ سنی تناؤ بڑھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر جنگ ایران اور دیگر مسلمان ممالک کے درمیان تقسیم کا باعث بنتی ہے تو اس صورتحال میں بھہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہوگا جس میں اسے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے غیر جانبداری یا توازن برقرار رکھنا ہوگا۔ پاکستان کی موجودہ عسکری قیادت سے توقع کی جاسکتی ہےکہ وہ پڑوسی اور مسلم برادر ملک ایران کی ہر سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمائت جاری رکھتے ہوئے خود کو براہ راسے جنگ میں ملوث ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔