مدرسین اور نصابی ماہرین کے زریعے اردو زبان و ادب کو تاریخی طور پر بانجھ بنا کے رکھنے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے کسی کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تو کوئی اس کے لیے احتجاج، ازالہ یا تدارک کا کیسے سوچے گا۔ مثال کے طور پر جدید اردو نظم کے میدان میں تعلیمی اداروں کے شعبہ ہائے زبان و ادب میں بیٹھے تنخواہ داروں کی تانیں میرا جی، راشد اور مجید امجد پر آ کر ٹوٹ جاتی ہیں جبکہ اختر حسین جعفری کی نظم اپنی ڈکشن، کرافٹ، رفعت خیال اور فکری گہرائی کے باعث ان تمام شعراء سے مختلف، نمایاں اور ممتاز نظر آتی ہے۔ بلکہ ایک صاحب نظریہ شاعر کی حیثیت سے وہ ان تمام متذکرہ بالا شعراء سے معتبر ترین مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ ن م راشد، مجید امجد اور میرا جی کے ہاں فارسی و مغربی شاعری کا مطالعہ جبکہ اختر حسین جعفری کے ہاں علم، ویژن اور سمت نمائی کی قوت شعری وصف کے طور پر صاف محسوس کیے اور سمجھے جاسکتے ہیں۔ جعفری صاحب کی علامتیں، تلمیحات اور استعارے انسانی تاریخ کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی مٹی، اپنی ثقافت اور اپنے کائناتی عقیدے کے مظہر ہیں۔
آسان ابلاغ سرسری قاری کے لیے تو پسندیدہ ہو سکتا ہے لیکن سنجیدہ قاری ہمیشہ محنت اور آرزو سے تخلیقکار کی فکری پرتوں کو کھول کر حظ اٹھاتا ہے۔ غالب، اقبال اور شیکسپئر مشکل شعراء ہونے کے باوجود مقبول ترین شعراء کی صف میں آتے ہیں۔ اختر حسین جعفری اسی قبیلے اور اسی قد کاٹھ کے شاعر ہونے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی مقبولیت کا زینہ طے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا سب سے زیادہ فائدہ جدید نظم کے نئے مگر جینوئن شعراء کو ہوا ہے کہ بغیر کسی سنگ میل کے منزل تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگرچہ مصنوعی غزلیں لکھنے والے ہجوم کے بعد اکا دکا مصنوعی اور تراجمی نظمیں لکھنے والے بھی خود کو نمایاں کرنے کے لیے دونمبر ایوارڈز سونگھتے نظر آتے ہیں لیکن نہ ان کو اپنے خاندان میں کوئی تسلیم کرتا ہے اور نہ باہر والے قابل توجہ سمجھتے ہیں۔ نئی نظم انہیں پر اپنے در وا کرتی ہے جو اس کے اکابرین کا اعتراف کرتے ہیں۔
ہمارے پاس لے دے کے چار پانچ ناموں کی مالا جپنے کے سوا آخر کیوں کوئی تسلسل نظر نہیں آتا؟ اس کا سیدھا سیدھا جواب یہ ہے کہ میر، غالب اور اقبال کو اگر نصابی سہارے لابیز کی مجبوریاں اور مجاوروں کی ذاتی ضرورت میسر نہ آتی تو شاید آج ہم جدید غزل کے تاجدار شکیب جلالی اور جدید نظم کے امام اختر حسین جعفری کی طرح ہر عظیم تخلیق کار سے بھی دور کیے جاچکے ہوتے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو حقیقی عوامی مقبولیت سے محروم چھوٹی چھوٹی لابیوں سے لیکر بڑے بڑے
مشاعروں اور کانفرنسوں میں نظر آنے والے چند نام ہی آپ کو ہر جگہ نمایاں ہوتے اور پھر کسی عہدے پر بیٹھتے نظر آئیں گے اور پھر ریٹائر ہونے تک بڑے بڑے ادیب شاعر اور نقاد پکارے جاتے دکھائی دیں گے اور اس کے بعد ٹائیں ٹائیں فش۔
جبکہ حقیقی شعراء حقیقی قارئین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ و تابندہ نظر آئیں گے۔