آج جاوید قاسم ہم میں نہیں لیکن میں اس کی زندگی میں زیر نظر مضمون لکھ کر اس گہرے پچھتاوے سے بچ گیا ہوں کہ "کاش اس کی زندگی میں لکھا ہوتا"۔ مجھے یہ اطمینان بھی ہے کہ اس نے اس مضمون پر بار بار خوشی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یار فرحت شاہ تو نے حق کردیا ہے۔ روزنامہ مشرق کا شکریہ کہ آج یہ مضمون ریکارڈ پہ اکے تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ یقیناََ اب یہ جاوید قسم پر کسی بھی تحقیقی کام کے لیے کارمد ہوگا۔
جاوید قاسم کا شمار عصر حاضر کے سینئر استاد شعراء میں ہوتا ہے۔ اگر مجھے آپ اجازت دیں تو میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جاوید قاسم فراق گورکھ پوری، فانی بدایونی اور جگر مراد آبادی کے قبیلے کا ایسا شاعر ہے جس کی شاعری میں کلاسیکی قرینے کے ساتھ ساتھ آج کا عہد دھڑکتا دکھائی دیتا ہے۔
اگرچہ آج کے غزلائے ہوئے شعراء کے لیے یہ یقیناً حیران کردینے والی بات ہوگی کہ جاوید قاسم کی غزل کے تمام لوازمات پہ اس کی حد درجہ گرفت کے باوجود اس کا خیال کہیں بھی ان لوازمات کے تابع نظر نہیں آتا بلکہ تلازمہ، قافیہ، ردیف، تشبیہہ اور استعارہ جیسے اوصاف ہمارے شاعر کے سامنے دست بستہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ جاوید قاسم کو زبان پر عبور ہے لیکن اس کے اشعار محض زبان کے چسکے تک محدود نہیں۔ اسے قدرت نے قافیے کے امکانات دریافت کرنے کی اہلیت سے نوازا ہے، ردیف اس کے شعروں میں آکے چمک اٹھتی ہے لیکن کہیں بھی یہ نہیں لگتا کہ اس کا اظہاریہ کمزور پڑا ہو یا خارجی فنی عوامل کے دباٶ میں آ گیا ہو جیسے کہ آج کے ننانوے فیصد غزل کہنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
وہ بنیادی طور پر احساس کے شاندار ابلاغ کا شاعر ہے اور اس حوالے سے اسے تمام ہمعصر شعراء پر فضیلت حاصل ہے جس کی وجہ جاوید قاسم کی بغیر کسی دنیاوی ہوس کے خالص شعر سے وابستگی ہے۔ زندگی بھر کے اخلاص اور صبر و رضا کی ریاضت کا ثمر ہی ہے کہ خدا تعالی نے اسے ارفع و اعلیٰ اشعار سے بے تحاشہ نوازا ہے۔
جاوید قاسم کے موضوعات کے تنوع اور بُوقلمونی کے باوجود آشوبِ زمانہ اور کرب ذات کا دائرہ اس کی فکر کو ارتباط اور کیفیات کو وحدتِ تاثر بخشتا ہے۔ اس کی غزل کا دوسرا نمایاں وصف ایمائیت ہے۔ دراصل شاعری بیک وقت اظہار کے متضاد قرینے کا ایسا سنگم ہے جو اسے تمام فنوں لطیفہ پر فوقیت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر شاعری ایک طرف دل میں چھپے ہوئے جذبات اور خیالات کو آرٹ بنا کے باہر لاتی ہے تو دوسری طرف ایسے جذبات جن کے بیان سے آرٹ کی بجائے عریانیت اور فحاشیت پیدا ہونے کا گمان ہو ان کو اتنے خوبصورت اور ملفوف انداز میں بیان کرتی ہے کہ وہ جمالیات کے مرتبے پر فائز ہوجاتے ہیں۔ یعنی ایک طرف شاعری ظاہر کرنے بلکہ نامعلوم کو معلوم میں لانے کا نام ہے تو دوسری طرف ظاہر کو چھپا کے بیان کرنے کا نام بھی ہے۔
اگر کسی نے شاعری کے اس دوطرفہ عمل کی بے تحاشہ مثالیں ملاحظہ فرمانی ہوں تو اسے چاہئیے کہ عہدِ حاضر میں حقیقی آبروئے غزل جاوید قاسم کی شاعری پڑھے۔ جاوید قاسم کے زیرِ اشاعت شعری مجموعے یا "عشق مدد" میں سے ایک شعر ملاحظہ کیجئیے۔۔
میں کسی بھی حدِ اخلاق کا پابند نہ تھا
میری پوشاک میں جب ٹاٹ کا پیوند نہ تھا
اس موضوع پر اتنا بڑا شعر کم از کم میں نے تو آج تک نہیں پڑھا۔ آپ پوری دنیا کے مذاہب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ خود کو آگے بڑھ کے اخلاقی حدود کے سامنے پیش کرنے والے وہی نظر آئیں گے جن کو اول تو پوشاکیں میسر نہیں ہونگی اور اگر ہونگی بھی تو پیوند زدہ۔ اب اسی شعر کا دوسرا پہلوُ دیکھئیے کہ دنیا بھر کا حکمران اور دولت پرست طبقہ شاید ہی کسی اخلاقیات کا پابند نظر آئے۔ چلیں تھوڑا رعایت دیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ کسی کسی پیسے والا کا خدا ہوتا ہے اور جنہوں نے طے ہی کرلیا ہے کہ پیسہ ہی خدا ہے تو ان کا آج تک کیا بگاڑ لیا ہے کسی نے۔
آئین، عدالتیں، قوانین صرف پیوند والوں کے لیے ہی بنائی گئی ہیں۔ جب بھی یہ پیوند لگی پوشاکوں والے اپنے حقوق کے لیے باہر نکلتے ہیں تو انہیں کی محنت سے چلنے اور انہیں کے ٹیکسوں پر پلنے والے ادارے حکمرانوں کے تحفظ کے لیے ٹاٹ کے پیوند والوں کے گلوں میں ضابطوں کی زنجیریں ڈالنے کے لیے متحرک ہوجاتے ہیں۔ اگر میں کہوں کہ یہ شعر عصر حاضر کا سب سے ارفع و اعلیٰ ترقی پسند ادب ہے تو ہرگز غلط نہیں ہوگا۔ فنی محاسن سے مرصع موضوع اور نظریے کی سطح پر ایسا جامع شعر نصیب ہونا بہت مبارک باد کی بات ہے۔
جاوید قاسم کی شاعری میں انسانی مجبوریوں اور مہجوریوں پر نوحے ملتے ہیں لیکن تغزل کے لطیف اور پرسوز قرینوں میں ملبوس اور رمزیت و ایمائیت کی تہ داریوں میں ملفوف۔
وہ بلند آہنگ ہو کے بھی بلند آہنگ محسوس نہیں ہوتا۔ ایک اور مثال دیکھئیے
پسِ ظلمت کہیں گروی پڑا ہے
چراغ دل نشیں گروی پڑا ہے
بادی النظر میں یہ شعر آپ کو روایتی غزل کا شعر لگے گا لیکن گروی پڑا ہے کی ردیف نے زمانوں پر محیط زر پرستی کی ذہنیت، منافع گردی کی نفسیات اور سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت کو اتنی آہستگی سے بےنقاب کرتا چلا جاتا ہے کہ جیسے شاعر کی یہی خواہش ہو کہ بات جہاں پہنچنی ہے وہاں پہنچ بھی جائے اور جہاں نہیں پہنچنی چاہئیے بھلے ان کے سامنے دھری رہے لیکن نہ انہیں دکھائی دے نہ سنائی دے۔ میں پورے اعتماد سے کہوں گا کہ اتنے بڑے موضوعات پر ایسی ایمائیت میر تقی میر کو بھی حاصل نہیں تھی۔ میر کے دل اور دلی اجڑنے پر گہرے حزن و ملال کا نہایت پُر اثر اظہار تو ملتا ہے لیکن بربادی کا باعث بننے والوں کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا۔
امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے
یہ واحد شعر ہے جسے ناقدین ادب زبردستی ترقی پسند نظریے کی جانب کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ یہ محض بیان ہے شعر تو بنا ہی نہیں۔ میر کے ہاں ایسے اشعار کی بھرمار ہے جو اشعار بنے ہی نہیں۔ فورٹ ولیم کالج سے میر کا دیوان یا کلیات شائع کیا جانا خالی از مصلحت نہیں تھا۔
گوروں اور منشیوں دونوں کو پتہ تھا کہ محکوم ہندوستانیوں کو رونے پیٹنے اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈال رکھنے کی اس سے بڑھ کے دوائی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ یہی وجہ تھی کہ غالب کی بجائے میر کو خدائے سخن کا لقب دے کے اس کا امیج بلڈ کیا گیا اور آج تک ہمارے تعلمی اداروں کے اردو شعبوں میں طوطوں کی طرح میر میر کی رٹ لگا کے طالب علموں کے ذہنوں کو مردہ مدرسین میں کنورٹ کیے جانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ساحر لدھیانوی اور اب تو علامہ اقبال کو بھی نصاب سے نکالنے کے فرنگی ایجنڈے پر عمل پیراء سہولت سینٹروں کو تعلیمی و ادبی ادارے کہہ کر حقیقی تعلیم سے دور رکھنے کا کام جس کامیابی سے کیا جا رہا ہے عام آدمی کے وہم و گمان میں بھی نہیں۔
جتنا بڑا میر کا امیج بنا دیا گیا ہے اگر آپ انصاف سے دیکھیں تو اس کے کریڈٹ پہ اچھی غزلوں کی تعداد بہت کم ہے جبکہ جاوید قاسم کے ہاں ہلکے اشعار کی تعداد بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ یہاں مجھے میرتقی میر اور جاوید قاسم کا نہ تو موازنہ مقصود ہے نہ جاوید قاسم کو میر سے بڑا شاعر قرار دینا ہے۔ میر نے جس وقت اردو غزل کو تخلیقی رفعتوں سے نوازا اس وقت خود اردو غزل بطور ہئیت فارسی غزل کے چرنوں میں بیٹھی تھی میر نہ ہوتا تو آج جاوید قاسم کی غزل کو بھی یہ رفعت حاصل نہ ہوتی۔ میرا نقطہء نظر یہ ہے کہ اردو ادب اور شعر و سخن کے ارتقاء کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی زبان و ادب کی حقیقی خدمت ہے، جسے مسلسل پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے اور اس جرم کے پیچھے نالائق اور مفاد پرست مدرسین ہیں۔ لائق اساتذہ تعداد میں کم سہی لیکن اس کرب کو پوری بےبسی سے محسوس کر رہے ہیں کہ اردو ادب حقیقی استاد سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
جاوید قاسم غزل کے روایتی تغزل کو بھی برقرار رکھتا ہے اور نظریاتی چنگاری بھی سلگاتا رہتا ہے۔ بلا کی تلخی کو بھی حد درجہ ملائمت میں لپیٹ کر پیش کرنا جاوید قاسم کا ہی حصہ ہے
غزل ملاحظہ فرمائیے۔۔
اس قدر تلخ نہ ہو خام خیالی نہ سمجھ
ظلِ سبحانی مرے طنز کو گالی نہ سمجھ
ہو بھی سکتا ہے کوئی قرض چکانے والا
در پہ آیا ہوا ہر شخص سوالی نہ سمجھ
شدتِ اشکِ تپاں کو نظر انداز نہ کر
چشم خوں ناب کو چائے کی پیالی نہ سمجھ
دم کیا ہے اسے، دہقان نے پھونکا ہوا ہے
خاک کو شہد کی تاثیر سے خالی نہ سمجھ
گال سکتی ہے فلک آہِ تپیدہ قاسم
اس دہکتی ہوئی بھٹی کو کٹھالی نہ سمجھ
***
رام ریاض اور سلیم کوثر کے تخلیقی سلیقے کے وارث جاوید قاسم کی غزل اتنی پُر اثر اور مضبوط ہے کہ جی چاہتا ہے لکھ دوں کہ برسوں بعد اردو کو غزل کا کوئی وارث نصیب ہوا ہے۔ نئے استعاروں، نئی تراکیب، تر و تازہ در و بست اور انتہا کی تلازمہ کاری جیسے محاسن لیے جاوید قاسم کا زیر نظر شعری مجموعہ، "یا عشق مدد" ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشاعرہ پارٹی اپنے تئیں معیاری غزل کو دفنا کے بیٹھ چکی ہے لیکن ان کو یہ نہیں پتہ کہ ان کی لڑائی محض جینوئن شاعروں سے ہی نہیں بلکہ نظامِ فطرت سے بھی ہے اور فطرت ان کی تمام تر مصنوعی کامیابیوں کے ماتھے پر جلی حروف میں شکست لکھ چکی ہے۔ عہدِ حاضر میں ان کی شکست اور معیاری شاعری کی فتح کا ایک نام جاوید قاسم بھی ہے۔
انتخابِ کلام
میرے جینے کی ایک صورت ہے۔
میرے سینے سے دل نکل جائے۔۔
***
اور تو مجھ سے چاہتا کیا ہے دورِ نا ہنجار
میں نےمردہ لوگوں میں بھی زندہ شعرکہے
***
کوئی کرن نہ کرن کا کہیں نشاں ہے میاں
یہ روشنی ہے تو پھر تیرگی کہاں ہے میاں
نمازیوں کو بتاؤ، نمازیوں سے کہو
یہ مسجدوں کی نہیں دشت کی اذاں ہے میاں
ہمارے عہد کی راتیں ہیں چاندنی سے تہی
ہمارے عہد کا سورج دھواں دھواں ہے میاں
کچھ ایسے بگڑی بے ترتیب روز و شب اب کے
زمین سر پہ ہے قدموں میں آسماں ہے میاں
میں چھان آیا ہوں لمحوں کی راکھ صدیوں تک
کوئی شرر نہ شرر کا کہیں گماں ہے میاں
بجا سہی کہ گریزاں ہیں ہم سے تعبیریں
ہمارے پاس کوئی خواب بھی کہاں ہے میاں
دکھائی دے نہ اسے ایسا کرب بھی قائم
مثال آئینہ چہروں سے جو عیاں ہے میاں
***
اگرچہ کام تو مشکل تھا کام کرنا پڑا
دیا جلا کے ہوا سے کلام کرنا پڑا
شجر کی مثل بنانا پڑا بدن اپنا
پھر اس کا سایہ پرندوں کے نام کرنا پڑا
بہت ہی نرخ گرانے پڑے مجھے اپنے
جو چیز خاص رہی اس کو عام کرنا پڑا
لہو جلا کے کوئی روشنی بنانی پڑی
پھر اس کے بعد دیے میں قیام کرنا پڑا
کبھی شمار تھا جن کا مرے غلاموں میں
نظر جھکا کے انھیں بھی سلام کرنا پڑا
حدودِ چرخ کہن سے ادھر اُدھر قاسم
نئی زمیں کا مجھے اہتمام کرنا پڑا