1. ہوم
  2. کالمز
  3. عابد ہاشمی
  4. خاموش مگر پُراثر رہنما

خاموش مگر پُراثر رہنما

انسانی زندگی رہنمائی کی متلاشی ہوتی ہے۔ بچپن سے بڑھاپے تک، ہر موڑ پر انسان کو ایک ایسے ساتھی، ایک ایسے مشیر، ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے۔ کبھی انسان اداسی کا شکار ہوتا ہے، کبھی ناکامیوں سے تھک جاتا ہے، کبھی مستقبل کے بارے میں الجھن میں مبتلا ہوتا ہے، ایسے وقت میں اسے ایسے دوست کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا ہو: "حوصلہ رکھو، آگے راستہ ہے۔ "ایسے میں ایک اچھی کتاب امید کی کرن بن جاتی ہے۔

اچھی کتابیں صرف ذاتی ترقی ہی نہیں کرتیں بلکہ معاشرتی اصلاح کا بھی ذریعہ بنتی ہیں۔ وہ قارئین کو دوسروں کا احساس سکھاتی ہیں، برداشت، رواداری، انصاف اور دیانت کے اصولوں سے روشناس کراتی ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل کو اگر اچھی کتب پڑھنے کی عادت ہو، تو وہ ایک بہتر شہری اور مثبت سوچ کا حامل انسان بنتا ہے۔ کتاب علم کا ایسا ذریعہ ہے جو صدیوں تک اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک مؤلف جب قلم اٹھاتا ہے تو اس پر ایک عظیم ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی تحریر کے ذریعے نہ صرف علم کی ترویج کرے بلکہ حقائق کو دیانت داری سے بیان کرے۔ ایک جانب دار کتاب یا تحریر نہ صرف قاری کو گمراہ کرتی ہے بلکہ معاشرے میں غلط فہمیاں اور تعصبات کو جنم دیتی ہے۔

دراصل کتاب صرف ایک خانہ پری اور اپنی شہرت کا نام نہیں۔ یہ قوم کی امانت ہے ہمیں جو علم اللہ تعالیٰ نے بطورِ امانت عطاء فرمایا وہ ہمارے اوپر قرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق تک وہ بلاتفریق منتقل کیا جائے تاکہ مخلوق خدا مستفید ہو سکیں۔ یہ کتابیں ہمارے لئے صدقہِ جاریہ ہیں یا تو عذابِ جاریہ۔ یہ فیصلہ بھی ہم نے ہی کرنا ہے کہ ہم میں سے خلوصِ نیت سے کتاب لکھنے والے مگر کتنے ہیں؟ کیا ہم صرف اپنی ذاتی تسکین کے لئے دوسروں کی زندگی تو نہیں اجیرن کر رہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری کتاب نسلِ نو، مخلوقِ خدا کی کیا رہنمائی کر سکے گی؟ کیا وہ کتاب مخلوق خدا کی درست رہنمائی کر سکے گی؟

آج کے دور میں جہاں معلومات کی بھرمار ہے، وہاں سچائی کی تلاش ایک چیلنج بن چکی ہے۔ ایسے میں کتابوں کا کردار مزید اہم ہو جاتا ہے۔ اگر مصنف کسی مخصوص سوچ یا طبقے کے دباؤ میں آ کر جانبدارانہ مواد لکھے گا تو وہ صرف ایک گروہ کو خوش کرے گا مگر معاشرے کی مجموعی فکری اصلاح سے محروم رہ جائے گا۔

ہر دور میں وہی اقوام ترقی کی راہوں پر گامزن ہوئیں جنہوں نے کتاب سے رشتہ مضبوط رکھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کتاب کو شعور کی کنجی سمجھا گیا تو انسان نے حیرت انگیز ترقی کی، لیکن جب اسے صرف رسمی تعلیم کا ذریعہ بنا دیا گیا تو ذہنی پسماندگی نے معاشروں کو جکڑ لیا۔ شعور دینے والی کتاب وہ ہوتی ہے جو قاری کو سوال اُٹھانا سکھائے، اسے سوچنے، پرکھنے اور سمجھنے پر آمادہ کرے۔ ایسی کتابیں سچائی کو بے نقاب کرتی ہیں، تعصب سے بالاتر ہوتی ہیں اور قاری کے اندر فکری دیانت پیدا کرتی ہیں۔

بدقسمتی سے آج کے دور میں کئی کتابیں محض نظریات کے پرچار، شخصیت پرستی یا ذاتی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ جب کہ اصل ضرورت ایسی تحریروں کی ہے جو نوجوانوں کو علم و فہم، تحقیق و تجزیے اور بصیرت و آگاہی کی طرف مائل کریں۔ لہٰذا، "کتاب وہی جو شعور دے" صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ فکری بیداری کا منشور ہے۔ ہمیں ایسی تحریروں کو فروغ دینا ہوگا جو سوچ کے در وا کریں، تنقیدی شعور جگائیں اور انسان کو محض قاری نہیں بلکہ ایک باشعور فرد بنائیں۔ تب ہی معاشرہ بھی آگے بڑھے گا اور نسلیں بھی فخر سے ان کتابوں کا حوالہ دیں گی۔

ایک اچھی کتاب وہی ہوتی ہے جو تحقیق، دلائل اور حقائق کی بنیاد پر لکھی گئی ہو۔ ایسی تحریر قارئین کے ذہن کو وسعت دیتی ہے، سوالات کو جنم دیتی ہے اور سچ تک پہنچنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ وہ تحریریں جو صرف جذبات، مفروضات یا ذاتی خیالات پر مبنی ہوں، دیرپا اثرات نہیں چھوڑتیں۔ مصنف کا فرض ہے کہ وہ امانت داری، دیانت اور غیر جانبداری کو مقدم رکھے۔ تاریخ، سوانح، تحقیق یا تنقید، کسی بھی میدان میں لکھی گئی کتاب تبھی معتبر سمجھی جائے گی جب وہ تعصب سے پاک اور حقائق پر مبنی ہو۔ اس لیے نہ صرف مصنفین کو، بلکہ قارئین کو بھی یہ شعور ہونا چاہیے کہ سچائی کو تلاش کریں اور ایسی کتابوں کی قدر کریں جو علم، فہم، تحقیق اور حقیقت پر مبنی ہوں۔ قلم مقدس امانت ہے۔ اسے استعمال کرتے وقت سچائی، غیر جانبداری اور حق گوئی کو ہر حال میں مقدم رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

ایک اچھی کتاب منفی خیالات کا زہر نکال کر مثبت سوچ کی آبیاری کرتی ہے۔ وہ مایوسی کے اندھیروں میں امید کی روشنی اور الجھنوں میں راہ دکھاتی ہے۔ وہ کردار سنوارتی ہے، شعور جگاتی ہے اور دلوں میں نرمی پیدا کرتی ہے۔ اچھی کتاب ایک ایسا استاد ہے جو نہ ڈانٹتا ہے، نہ تھکاتا ہے، نہ وقت کا پابند ہوتا ہے۔ یہ ہر وقت دستیاب ہوتا ہے، خاموشی سے اپنے قاری کو علم، فہم، بصیرت اور سوچ عطا کرتا ہے۔ ایک اچھی کتاب انسان کے خیالات میں وسعت پیدا کرتی ہے، اس کی سوچ میں پختگی لاتی ہے اور اس کی شخصیت کو نکھارتی ہے۔

ایسی کتابیں جو دینی، اخلاقی یا فکری پہلو رکھتی ہیں، وہ روحانی رہنمائی کا کام بھی دیتی ہیں۔ قرآن پاک، سیرت النبی ﷺ اور دیگر اسلامی کتب انسان کو راہِ راست پر رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح فلسفہ، تاریخ، نفسیات یا سوانح عمریوں پر مبنی کتابیں بھی زندگی کے کئی پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

کتاب صرف کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر نہیں، بلکہ ایک ایسی روشنی ہے جو دل و دماغ کو منور کرتی ہے۔ ایک اچھی کتاب صرف وقت گزارنے کا ذریعہ نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ آج کے دور میں جب سوشل میڈیا نے توجہ بکھیر دی ہے، ہمیں اپنی اور نئی نسل کی تربیت کے لیے "اچھی کتاب" کو بطور رہنما دوبارہ اپنی زندگیوں میں شامل کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایک اچھی کتاب، ایک اچھی زندگی کی ضمانت ہے۔ اس حوالے سے اگر کسی شے کو خاموش مگر پُراثر رہنما کہا جائے تو وہ "اچھی کتاب"ہے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔