1. ہوم
  2. غزل
  3. خرم سہیل
  4. دکھ نہ کر، موسمِ غم ہے یہ بدلنے والا

دکھ نہ کر، موسمِ غم ہے یہ بدلنے والا

دکھ نہ کر، موسمِ غم ہے یہ بدلنے والا
رات کی کوکھ سے سورج ہے نکلنے والا

قحط ہے آخری دم پر یہ ہوا یوں معلوم
سوکھے پیڑوں پے یہ باراں ہے برسنے والا

ہو نا امیدِ بہاراں، تو چمن میں شائد
فصلِ گل میں نا ملے گل کوئی کِھلنے والا

اپنے ہاتھوں سے گراوں گا یہ وحشت دیوار
اب نئے ظلم سے میں تو نہیں ڈرنے والا

ایک بے گور و کفن لاشے نے سر گوشی کی
حال غربت نے کیا میرا نا کرنے والا

اب نئی چوٹ لگا جان کے دشمن میرے
زخمِ دل وقت کے مرہم سے ہے بھرنے والا

ناچ پتلی کا ہے جمہور کے ایوانوں میں
بات حق کی نہیں اب کوئی بھی کرنے والا

میں نہیں ہارا کبھی آج مگر ہاروں گا
آستیں کا ہے مری سانپ یہ لڑنے والا

جادہِ حق پے سہیل ایک مسافر نہ ملا
کتنے ویران سفر پے تھا، میں چلنے والا