کہیں تو خیر کہیں یہ بھی شر سے گزرے گی
یہ زندگی تو ہر اک رہ گزر سے گزرے گی
ہیں جب سے پہرے بٹھائے گئے سماعت پر
ہر ایک بات ہی اب اپنے سر سے گزرے گی
مجھے جو چھوڑ گئی ماں، میں ہوگیا تنہا
مری تو رات ترے بعد ڈر سے گزرے گی
بڑے دنوں سے دم گھٹ رہا تھا وحشت میں
ہوائے خیر مرے آج گھر سے گزرے گی
مجھے بھی دیکھنا ہے آج حوصلہ اس کا
ملن کی پیاس ترے ہجر تھر سے گزرے گی
مرے سخن کو خدائےِ سخن جلا بخشے
یہ جھولی فکر کی جب اسکے در سے گزرے گی
مجھے یقین ہے آنکھوں سے چوم لے گا وہ
مری غزل جب اس کی نظر سے گزرے گی
سہیل بانہیں پسارے وصال ہوگا کھڑا
شبِ فراق مری جب سحر سے گزرے گی