اشکوں سے عیاں درد کے ہونے کی دیر تھی
ہلکا یہ دل ہوا، مرے رونے کی دیر تھی
اس سے تو پہلے غم یا خوشی کا نہ تھا وجود
مٹی کے بت میں سانس پرونے کی دیر تھی
نا کردہ پھر گناہوں کے چھینٹوں نے آ لیا
دامن سے پچھلے داغوں کو دھونے کی دیر تھی
چہرا پھر اس کے بعد تبسم سے کِھل اٹھا
چلمن کو آنسووں سے بھگونے کی دیر تھی
پھر اس کے بعد مل نہ سکا خود کو آج تک
مجھکو ترے خیال میں کھونے کی دیر تھی
سب دوستوں نے بھی مجھے یکسر بھلا دیا
رخصت جہاں سے بس مرے ہونے کی دیر تھی
پھر تو کسی سے کوئی مجھے خوف نہ رہا
خوفِ خدا کو دل میں سمونے کی دیر تھی
میرے غموں کو عارضی رحلت نے آ لیا
میری سہیل اک زرا سونے کی دیر تھی