نہ کوئی قطب نہ ابدال نظر آئے مجھے
ہر طرف جھوٹ کے قوال نظر آئے مجھے
میں ولی ہوں نہ قلندر نہ کوئی پیر میاں
دیکھ کر کل یہ ترا حال نظر آئے مجھے
ہضم ہوتا ہی نہیں پیار یہ دکھلاوے کا
دل کے آئینے میں جب بال نظر آئے مجھے
مجھ سے ڈرتے رہے گیدڑ کی طرح ابتک جو
شیر کی پہنے ہوئے کھال نظر آئے مجھے
میں تو واقف ہوں ترے بول کے پیچ و خم سے
میٹھا گفتار بھی اک چال نظر آئے مجھے
کل اچانک جو پڑی گل پے نظر گلشن میں
پھول کب تھے وہ ترے گال نظر آئے مجھے
حرص بڑھ جائے تو پھر بھوک کہاں مٹتی ہے
لحم بھی تھالی میں اب دال نظر آئے مجھے
ان پے چلتا ہوا اک شخص دکھائی نہ دیا
ہر جگہ شہر میں اقوال نظر آئے مجھے
ویسے کہنے کو جدائی کا یہ اک پل خرم
کاٹنے بیٹھوں تو اک سال نظر آئے مجھے