1. ہوم
  2. غزل
  3. خرم سہیل
  4. کب یہ چاہا تھا شب غم میں بسر ہو جائے

کب یہ چاہا تھا شب غم میں بسر ہو جائے

کب یہ چاہا تھا شب غم میں بسر ہو جائے
اب کسی طور مرے غم کی سحر ہو جائے

جلوہِ یار کو ترسی ہیں نگاہیں کب سے
کیا ہو گر میری دعاوں میں اثر ہو جائے

شب بیداری میں کرتا ہے کرم وہ اکثر
التجا یہ ہے کہ اب آٹھوں پہر ہو جائے

ساقیا اب نہ پلا آنکھ سے اپنی ایسے
تیرا میکش نہ کہیں گھر سے بے گھر ہو جائے

سیج دنیا کو سمجھتا میں رہا پھولوں کی
کیا ہی ہو خواب یہ سچا جو اگر ہو جائے

پھر مجھے اور کسی پہلو کی حاجت کیا ہو
ماں کی آغوش میں گر میرا یہ سر ہو جائے

شیخ تلقین تو کرتا ہے مگر دل سے نہیں
بات وہ دل سے نکالے تو اثر ہو جائے

میں نے قسمت کے فقیر ایسے بھی دیکھے خرم
بدلے گھر صحرا میں پھر صحرا ہی گھر ہو جائے