اَشک سے آنکھ تر نہیں کرتے
ہم یوں صحرا کو گھر نہیں کرتے
کام ابلیس کے جو ہوتے ہیں
با خدا وہ بَشر نہیں کرتے
گل جو ہوتے ہیں بیچ راتوں کے
دیپ وہ پھر سحر نہیں کرتے
دیکھتے ہیں جو بس کھڑے نیچے
چوٹیوں کو وہ سر نہیں کرتے
رُوح جاتی ہے موت کے ہمراہ
جسم تو واں سفر نہیں کرتے
سب کو معلوم ہے ہنر اِس کا
پھر بھی مٹی گُہر نہیں کرتے
حوصلہ نہ ہو زندگی کی چٹان
پھر کسی طور سر نہیں کرتے
مول ہو جس کا میٹھے بول وہاں
کام پھر سیم و زر نہیں کرتے
لاکھ حُجت ہو سامنے ان کے
وہ برا کام پر نہیں کرتے
لگ نہ جائے کہیں نظر ان کو
یوں ادھر کو نظر نہیں کرتے
دل کی مرہون ہے اڑان سہیل
حوصلہ، بال و پر نہیں کرتے