1. ہوم
  2. غزل
  3. خرم سہیل
  4. یہ ضبط کا پشتہ ہے جو اک ضد پہ اڑا ہے

یہ ضبط کا پشتہ ہے جو اک ضد پہ اڑا ہے

یہ ضبط کا پشتہ ہے جو اک ضد پہ اڑا ہے
یوں گریہ مری آنکھ کے اس پار کھڑا ہے

آزار بھی کٹ جائیں گے مشکل کے کسی دن
دشمن گو یہ قسمت کا مقابل میں کڑا ہے

لب بستہ ہو جو بات نہ رکھے کوئی دل میں
حق بات ہے وہ شخص ہی تو قد میں بڑا ہے

ہر سال وہ دیتا ہے کیوں مجھ کو مبارک
اس عمر کے پربت سے گو اک برگ جھڑا ہے

افلاک کو سر کرنے کی ٹھانی تھی کسی نے
سانسوں کے بنا گور کی گودی میں پڑا ہے

کہنے کو مسلمان ہیں پر ہے یہ حقیقت
مسجد ہے جدا انکی الگ اپنا دھڑا ہے

دنیا وہ دریا ہے جو ہے سوچ سے گہرا
انسان اس میں تہرتا اک کچا گھڑا سے

افلاس کے ہاتھوں سے گلا گھٹ گیا خرم
حاکم ہی تو مجرم ہے اور سب سے بڑا ہے