بس وہی ہوتا ہے جو مقدور ہے
ہو فرشتہ بھی مگر مجبور ہے
لا ابالی پن میں یہ مخمور ہے
غیر واضع دل کا جو منشور ہے
عشق کر سکتے نہیں کم ظرف لوگ
عشق تو ان کی پہنچ سے دور ہے
تارے دکھلاتی ہیں دن میں تاروں کو
کہکشاؤں کا کڑا دستور ہے
ان پروں کی پیروی اب کر نہ باز
شہر بوئے یار سے مخمور ہے
بن کے موسٰی کر کبھی اس کی تلاش
تیرے سینے میں بھی کوہِ طور ہے
دل کی موجیں دم نہیں لیتیں جہاں
سوچ مرضی سے وہاں معمور ہے
کھول کر آنکھیں اگر دیکھے کوئی
دل کی آنکھوں میں چمکتا نور ہے
دیکھتا ہے ہر طرف حسنِ ازل
عشق کے نشے میں جو بھی چور ہے
اس سے احمد دور کر دے ہر حجاب
دل ترا پردوں میں کیوں مستور ہے