جو ہوا شمعِ سحر پر اب ہے بَرہم
 وہ شناسا تھی اُسی کی لُو سے باہم
اک دیے کا حبسِ بے جا میں گُھٹا دم
 اب بچھائے گا دھواں بھی فرشِ ماتم
وصل کی جس شب میں راحت بھی تھی میسر
 تھا اسی شب ہر طرف اِک ہُو کا عالم
منتظر تھا میں درِ مطلع پہ ان کا
 وہ مقطع پر ہی مل لیتے کم از کم
جان ہے کچھ جن میں وہ لے آؤ مصرعے
 جو ابھر آئے کتابوں میں سے یکدم
دَم سے آیا تھا نہ دَم میں دَم اے ہمدم
 دَم ہی نے کیا ایسا میرے ناک میں دم
چاہتے ہیں وہ تجھے پرکھیں بھی احمد
 تو لغت کردار کی رکھ پاس ہر دم