1. ہوم
  2. غزل
  3. علی رضا احمد
  4. کون آیا ہے شبِ غم میں ستانے کے لئے

کون آیا ہے شبِ غم میں ستانے کے لئے

کون آیا ہے شبِ غم میں ستانے کے لئے
نیند خود ہی آ گئی مجھ کو جگانے کے لئے

تیرا جانا جانِ جاناں وہ گراں گزرا مجھے
ایک دفعہ لوٹ کے آ پھر سے جانے کے لئے

ان میں سرخی بھی تھی شوخی بھی تھی اور تھا عجز بھی
لے گیا آنسو میں جب اس کو دکھانے کے لئے

شمع روشن کی میں نے اے رہ گزر تیرے لئے
تو نہ پلٹا آس میری کو بجھانے کے لئے

جادو کر دے جو اچانک میرے دل پر بس وہی
چاہئے سرسوں ہتھیلی پر جمانے کے لئے

جب چلے گی سرخ آندھی لوگ تو پوچھیں گے یہ
تم کہاں سے آئے ہو ملبہ اٹھانے کے لئے

لیتے ہیں کچھ آنسو چلو اپنے ہی دل پر گرا
عالمِ حیرت میں ہر غم کو مٹانے کے لئے

گہری شب پر تھی جو لازم پردہ داری اس لئے
چھائی ہے دن کی طرح پردہ ہٹانے کے لئے

وہ نظر سے گرتے ہیں احمد نہیں اس میں ہے شک
نیچ حرکت کرتے ہیں نیچا دکھانے کے لئے