بھلے میری آنکھیں وہ تر کر گیا ہے
مگر دل میں میرے وہ گھر کر گیا ہے
مرا خط تھا اور پھر تھما کے عدو کو
یہ کیسی خطا نامہ بر کر گیا ہے
چلو میرے بھائی غزہ کی طرف بھی
اشارہ مجھے اک نڈر کر گیا ہے
میں دھرتا نہیں کان باتوں پہ اس کی
ابھی کان تیرے جو بھر کر گیا ہے
وہ شہ زادی ہو یا وہ آیا ہو اس کی
جو دنیا میں آیا وہ مر کر گیا ہے
گھما کے مجھے عشق وادی میں احمد
محبت کی چوٹی وہ سر کر گیا ہے