1. ہوم
  2. غزل
  3. علی رضا احمد
  4. تیرا آنا بھی مرے یار بہانہ نکلا

تیرا آنا بھی مرے یار بہانہ نکلا

تیرا آنا بھی مرے یار بہانہ نکلا
میں حقیقت جسے سمجھا تھا فسانہ نکلا

میری غربت سے نہ گھبرا کہ میں وہ مٹی ہوں
جس کو کھودا جو کسی نے تو خزانہ نکلا

میرے جراح نے جب ان پہ چلایا نشتر
جسم کا میرے ہر اک زخم پرانا نکلا

تیر جو اس نے کسی اور کی جانب چھوڑا
جانے کیوں وہ بھی مری سمت روانہ نکلا

اس شکاری کی جو زد میں تھا پرندہ آیا
چونچ میں اس کی فقط ایک ہی دانہ نکلا

میں ٹھکانے لگا دیتا کہیں یادیں ان کی
میرے دل میں ہی محبت کا ٹھکانہ نکلا

کیسا ہوتا ہے ترقی کا وہ زینہ احمد
کھوج میں جس کی شب و روز زمانہ نکلا