رگڑتے رہے ایڑیاں جیسے جیسے
وہ کستے گئے بیڑیاں جیسے جیسے
بھرا رہتا ہے اس کا دامن بھی ہر دم
لٹاتا ہے وہ جھولیاں جیسے جیسے
زباں پر بنے سنورے آتے ہیں جملے
نکھرتا ہے ان کا بیاں جیسے جیسے
اترتے ہیں دل میں وہ الفاظ اس کے
میں سنتا ہوں میٹھی زباں جیسے جیسے
زیارت کو پھر دل ترستا ہے میرا
بیاں ہوں تری خوبیاں جیسے جیسے
کھٹکتے ہیں پھر بام و در رات ہوتے
جو ہوتی ہے سازش عیاں جیسے جیسے
خزاں بھی چھٹے گی بہاروں کے سر سے
ہر باطل کا مٹاؤ نشاں جیسے جیسے
اسی دھن میں نغمے میں لکھتا رہوں گا
سناتا ہے وہ ٹھمریاں جیسے جیسے
زمانہ کھڑا تھا وہیں رو کے احمد
بنے اشک سیلِ رواں جیسے جیسے