برچھی ڈھال سے ٹکرائی اور تلوار تلوار سے۔ لوہے سے لوہا ٹکرانے کی یہ جھنکار وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تیزی لا رہی تھی۔ بے روح جسموں میں تھکن کے آثار دور دور تک نہیں تھے۔ بے خوف و خطر لڑنے والے زومبیوں کے اس جتھے کے ساتھ تربیت حاصل کرنے والے لڑکوں کے ہاتھوں میں گرچہ لکڑی کی ہلکی پھلکی تلواریں تھیں لیکن ان کے بازو شل ہو چکے تھے اور ٹانگیں تکان سے بھاری۔
سورج بلند ہو کر عمارت کے اوپر سے جھانک رہا تھا۔ بیرک کے احاطے میں کھڑے درختوں کے سائے قدموں تلے مختصر ہو گئے تو بالکونی میں کھڑے صاحبِ پرستش مہا دیوتا نے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا حکم دیا۔
کپتان بھاری آواز میں چلایا، "پریڈ، سٹینڈ ایزی"۔
مہا دیوتا سپاٹ چہرے اور حرارت سے خالی کٹھور آواز میں چلایا، "سودھارا کہاں ہے؟"
"میرے دیوتا! میں نے اسے صبح سے ہی نہیں دیکھا"۔ کپتان نے محتاط آواز میں جواب دیا۔
اس دربار میں سب سچیت ہی رہتے تھے۔
مہا دیوتا کی نظر بیرکوں کے اوپر سے ہوتی ہوئی دور پہاڑی دروں میں بھٹکنے لگی۔
"سب کو بیرکوں میں آرام کے لیے بھیج دو۔ میں جانتا ہوں وہ کہاں ہوگا"۔
کپتان سر بسجود ہوگیا۔ مہا دیوتا نے ان دیکھی تاروں کو جھٹکا دیا اور زومبیوں کے دستے منظم طریقے سے بازؤں کو حرکت دیتے ہوئے اپنی فرود گاہوں کی طرف چل پڑے۔ زندہ مردے بالکل تر و تازہ حالت میں تھے۔ یہ وہ سپاہی تھی جو مہا دیوتا کے مانن ہار تھے۔ زندہ کیے گئے ان مردوں کے کھوکھلے جسموں پر جلد ڈھول کی کھال کی طرح تنی ہوئی اور آنکھیں بے نور و خشک تھیں۔ مشینی رفتار میں ذرا برابر ڈھلک نہیں تھی۔ پریڈ برخواست کا حکم ملتے ہی لڑکے بھی واپس چل پڑے۔ ان کی چال کَنّی کھا رہی تھی۔
***
دور پہاڑی کے دامن میں واقع خیابانِ چمن میں گھاس اور مُشک بالا کی جھاڑیوں پر ابھی تک بادلوں نے چھاؤں کی ہوئی تھی۔ کچھ گلِ داؤدی کھل چکے تھے۔ نشیلی گھٹاؤں کی اڑان نے ہر طرف مدھ بکھیر دی تھی۔ رات بارش نہیں برسی یہ گھٹاؤں کا پسینہ تھا جس نے مشک بالا کے پھولوں اور زمین کو نم کر دیا تھا۔ سردی سے ٹھٹھہرے پھول اور پتیاں سورج کی روشنی پا کر رنگ نکال لائے تھے۔ اس جھنڈ میں موجود ہر شے اپنی فطرت پر آ کر تازگی و شگفتگی کے جوش سے کِھل گئی تھی۔ مٹی کی سیلن اور مشک بالا کے پھولوں کی خوشبو سے پورا عالم مہک رہا تھا۔ نور ریز گھاس پر سفید پھول چراغ کی مانند روشن تھے۔ ایک کمسن گلِ داؤدی پر تتلی منڈلا رہی تھی۔
فطرت کی یہ جوانی دیکھ کر سودھارا اٹھلاتا چل رہا تھا۔ وہ ایک ایک گلِ داؤدی کے پودے کے پاس جاتا۔ اس کے ساتھ گاڑی گئی لکڑی کو دیکھتا۔ سیلن اور ہوا کے دباؤ سے جھکی ہوتی تو اسے سیدھا کر دیتا۔ پودے کی جڑ ننگی پاتا تو اس کے ساتھ مٹی لگانے لگتا۔ جس پھول کو دیکھتا وہ کِھلتا، مُسکاتا اور مسکاتا ہی جاتا جب تک وہ نظر نہ ہٹا لیتا۔ رات اس نے چائے میں مشک بالا کی جڑوں کا سفوف ڈال کر پیا تھا۔ یہ اس کا نشہ تھا یا بھور بھئے آنے والی لالی کے عشق کا سرور جس کی مستی میں وہ سب کچھ بھول گیا۔
کچھ دیر پہلے ہی وہ دھانی جوڑا پہنے، سر پر آنچل پلو کا دوپٹہ اوڑھے، بڑے غرور و حلم و ناز سے اس کے پاس بیٹھی تھی۔
مہا دیوتا اس گل و گلزار کنج میں یوں داخل ہوا جیسے طوفان امڈ آیا ہو۔
"سودھارا تم ادھر کیا کر رہے ہو؟"
سودھارا نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اسے احساس ہوگیا تھا کہ مہا دیوتا تشریف لا رہے ہیں۔ یہی جان کر اس نے لالی کو واپس بھیج دیا تھا۔
"جی! مہا دیوتا"۔ اس نے پودوں کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"تم آج پھر ٹریننگ کے لیے نہیں آئے"۔ لہجہ تلخ تھا۔
سودھارا اٹھ کھڑا ہوا، مٹی والے ہاتھ جھاڑنے لگا پھر انہیں اپنے چوغے سے پونچھ لیا۔
"پودوں کو گوڈی کی ضرورت تھی۔ کچھ دن پہلے ہوئی بارش اور ہوا سے ان کی جڑیں ننگی ہوگئی تھیں میں انہیں ٹھیک کر رہا تھا"۔
ٹھنڈی ہوا اور مٹی کی خوشبو اسے ابھی بھی مست کیے ہوئے تھی۔ مشک بالا کے پھول اسے اپنی طرف بلا رہے تھے۔
" کسی چیلے کو حکم دیتے۔ خود خاک سے کھیلو گے تو طبیعت پستی کی طرف مائل ہوگی۔ تمہارا کام جنگجو چیلوں اور زومبیوں کے جتھے کی کمانڈ کرنا ہے"۔
"چیلے! عقل و شعور سے عاری زندہ لاشیں؟ یہ مجھے ذرا نہیں بھاتے۔ لگتا ہے میں گدھوں کا ریوڑ ہانک رہا ہوں"۔
مہا دیوتا کی آنکھوں بے حرکت تھیں۔
"جیسا بھی کہہ لو یہ کام تو کرنا پڑے گا"۔
سودھارا نے مٹھیاں بھینچ لیں، "مجھے انسانوں سے محبت ہے"۔
مہا دیوتا کی روشن آنکھیں اندھیری پڑ گئیں۔ جیسے دوات میں کالی سیاہی بھر دی گئی ہو۔ وہ پنجوں کے بل کھڑا ہوگیا۔ شمشاد قد مہا دیوتا کا سر آسمان کو چھو رہا تھا۔
"باپ سے مخاطب ہونے کا یہ طریقہ مناسب نہیں اور باپ بھی وہ جو ہزاروں لاکھوں دلوں کی امید کا مرکز ہے۔ ان کا سہارا ہے۔ جس کے بغیر تم خاک بھی نہیں"۔
"ہاں! سچ کہا آپ نے۔
لیکن کاش"۔ وہ خاموش ہوگیا۔
"اب ٹریننگ سے کوئی چھٹی نہیں ہونی چاہیے"۔ الفاظ احکامات کی شکل میں زمین پر اتر رہے تھے۔ ہوا تھم گئی۔ پودوں نے سر جھکا لیے۔
"یہ آخری تنبیہ ہے"۔
تحمل کے بوجھ سے آواز بھاری ہوگئی تھی۔ بائیں ابرو کی پھڑک دیکھ کر پھول لرزنے لگے۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔
سودھارا زمین پر بیٹھ کر پودوں کو دیکھنے لگا۔ ایک جھکے ہوئے پودے کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اس کے گرد مٹی کو دباتے ہوئے بولا، "مجھے افسوس ہے!"
***
رات سونے سے پہلے پکا ارادہ کیا کہ صبح وقت پر اٹھ کر ٹریننگ کے لیے جائے گا۔ سرد اداس رات میں نیند کا بوجھ اتنا بڑھا کہ بستر چھوڑنا دوبھر ہوگیا۔ سورج نے کھڑکی سے جھانکا تو آنکھ کھلی۔ یونیفارم پہنی، پریکٹس کی تلوار اٹھائی اور چل پڑا۔ آدھا راستہ طے کیا تھا کہ دل میں آئی ایک نظر نئے کھلے پھولوں کو دیکھ لوں۔
صرف چند منٹ، اس کے بعد ٹریننگ۔۔
باغیچے کی باڑ ٹوٹی ہوئی تھی۔ پودوں کو کچلا گیا تھا۔ ایک طرف پڑی سوکھی گھاس میں آگ دہک رہی تھی۔ چمن سے لے کر پہاڑی تک تمام دھواں دھار سے گھٹ رہا تھا۔ ٹھٹھری ہوا میں کیچڑ اور دھویں کی بساند بس گئی تھی۔ پورے چمن کو روند کر پھولوں اور پودوں کو بے توقیر کر دیا گیا تھا۔
لالی ہانپتی ہوئی اس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ "یہ وقت تمہاری ٹریننگ کا ہے"۔ خوف اس کی آواز سے جھانک رہا تھا۔ پھر اس کی نظر توڑ پھوڑ پر پڑی۔
"اوہ!"
"بھیڑ بکریوں کے ریوڑ نے یہ تباہی مچائی ہوگی"۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
"بہت زیادہ تعداد ہوگی"۔ وہ بھی اس کہانی کو جھٹلانا نہیں چاہتی تھی۔ محبت کے اظہار کا یہ انوکھا طریقہ تھا۔
وہ پودوں کے پاس جا کر انہیں دیکھنے لگا۔ پھولوں کو اٹھایا تو اس کے ہاتھوں کی گرمی پا کر جھرجھرانے لگے۔
"گھبرانے والی بات نہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا"۔ آہ سرد بھر، نالہ گرم گاہ کر، وہ پھولوں کو چوم رہا تھا۔
لالی اس کے سامنے تھی۔ درد بھری مسکراہٹ سمیٹتے ہوئے اس کے رخسار پر بوسہ دیا۔
"تم بہت مہربان طبع ہو"۔
دور درختوں کے جھنڈ کے نیچے پتھریلی سیاہ آنکھوں والا مہا دیوتا سب دیکھ رہا تھا۔ ایک اور دن کی غیر حاضری سے اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا۔
***
اگلی صبح سودھارا اور لالی جھرنے کے پاس بیٹھے تھے۔ صاف شفاف پانی، ٹھنڈا ٹھار۔ شیتل دھارا کا سنگیت انہیں مست کر رہا تھا۔ وہ کل کا دکھ بھول کر پتھروں سے کھیلنے لگے۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ہاتھ میں اٹھاتے اور پھر پانی میں چھوڑ دیتے۔ بعد نصف النہار بھیگے بھیگے واپس چل پڑے۔
کمرے کے باہر اسے مہا دیوتا مل گئے۔
"تم آج پھر ٹریننگ پر نہیں آئے"۔
"شام کو شامل ہو جاؤں گا"۔
"شام ہو چکی ہے"۔ مہا دیو کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔
***
رات بھر سودھارا الجھنوں کے گھنیرے جنگلات میں بھٹکتا رہا۔ محبت کے اجڑے باغات کو سنوارنے کی کوشش کرتا تو سلگتے دشت اور تلخیوں کے ببول ہاتھ پاؤں چھلنی کر دیتے۔ شفقت پدری کو ڈھونڈتا تو خدائی قہر و عتاب سامنے پاتا۔
اندھیری رات میں ہی باغیچے کی طرف چل پڑا۔
سامنے ہی لالی کا مردہ جسم پڑا تھا۔
وہ چلایا، رویا، بین ڈالے۔ جسم کو الٹ پلٹ کر دیکھا، ساتھ چمٹ گیا۔ جسم پر تشدد یا زخم کا کوئی نشان نہیں تھا۔ مہا دیوتا کو ہتھیا کرنے کے لیے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں تھی۔
آنکھوں کی روشنی چلی گئی تھی لیکن جسم کی گرمی ابھی برقرار تھی۔ پکارتا رہا، "لالی، لالی! اٹھو"۔
وہ پورے زور سے چلا رہا تھا۔ اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ یہی وقت تھا جب اس کے جسم کی مخصوص طاقت حرکت میں آئی۔ یہی کرشماتی صلاحیت تھی جس سے وہ پودوں اور بے موسمی پھولوں کو سنوارتا تھا۔ آج وہ طاقت پورے زور سے اس کے سینے کے اندر مچل رہی تھی۔ منہ زور پاگل ہاتھی کے سماں جو چنگھاڑتا ہوا پسلیوں کے پنجرے کو توڑ دینا چاہتا ہو۔
وہ جانتا تھا کہ یہ اس کے باپ کی خواہش تھی اور یہی سودھارا کرنا نہیں چاہتا تھا۔
وہ اب بھی انکار کر سکتا تھا۔ رو دھو کر اسے دفن کر دیتا تو چیلوں اور زومبیوں کے لیے ایک مثال قائم ہو جاتی۔
"نہیں، لالی نہیں! لالی اٹھو"۔
وہ کسی دیوتا کو نہیں پکار رہا تھا، نہ ہی کسی خدا کی مدد کی ضرورت تھی اور نہ ہی باپ کا حکم مان کر یہ عمل کر رہا تھا۔ آج وہ خود سب کچھ تھا۔
اپنی انگلیوں کو لالی کی دونوں آنکھوں کے درمیان زور سے دبایا۔ یہ طریقہ اس نے مہا دیوتا کو ان مردہ سپاہیوں پر استعمال کرتے دیکھا تھا جو لڑتے لڑتے مر جاتے۔ اس کی زبان پر وہی الفاظ رواں ہو گئے جو مہا دیوتا اسے بچپن سے سکھاتا رہا تھا۔
اس عمل کو استعمال نہ کرنے کا اس نے لالی سے وعدہ کیا تھا۔
"اٹھو! لالی اٹھو"۔
لالی کے سینے میں حرکت شروع ہوگئی۔ زور سے ہوا اندر باہر گئی تو ایسی آواز ابھری جیسے پھٹا ہوا ڈھول دھپ دھپانے لگے۔ پلکیں جھپکائیں تو آنکھیں حرکت کرتی دکھائی دیں۔ کٹورا سی سرمئی نم آنکھیں دھندلا کر بے رنگ ہوگئی تھیں۔ لالی نے ہاتھ اٹھایا اور پھر گرا لیا۔ منہ کھولا اور بند کر لیا۔
ٹوٹی باڑ کے پاس مہادیو کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں برہمی و بیزاری تھی اور کچھ ایسا بھی تھا جس سے راحت جھلکتی ہو۔
سودھارا اسے ساتھ لے کر بیڈ روم میں آ گیا۔ بولتا تو وہ خاموشی سی سنتی۔ کچھ پوچھتا تو چند الفاظ میں جواب دے کر خاموش ہو جاتی۔ ٹھنڈے بدن کو لحاف میں لپیٹ کر اس کے ساتھ لیٹ گیا۔
اب وہ روزانہ ٹریننگ پر جاتا۔ خصوصی توجہ سے اَن دیکھے تاروں کا علم سیکھا۔ وہ ان تاروں کو محسوس کر سکتا تھا جن سے لالی کے ساتھ رابطہ قائم ہوتا۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق اسے حرکت دے سکتا تھا اور ان زومبیوں کو بھی کنٹرول کر سکتا تھا جو کئی میٹر دور کھڑے ہوتے۔ اپنی سوچ اس میں منتقل کر دیتا۔ لالی اس کے پاؤں کے ساتھ پاؤں ملا کر چلتی۔ اس کی دل کی دھڑکن کے ساتھ اپنی حرکات ملاتی لیکن چھوتا تو قربتوں کی وہ تپش نہ ملتی جو اس کے وجود میں آتش فشاں جگاتی تھی۔
سودھارا اسے واپس لے آ یا تھا لیکن واپس نہیں لا سکا تھا۔ وہ لالی نہیں کھال اور ہوا کی بنی بے روح پتلی تھی۔ زومبی، ایک زندہ لاش۔
ایک رات وہ اٹھا اور اسے ساتھ لے کر اجڑے ہوئے باغیچے میں پہنچ گیا۔
اس نے اپنے ہاتھوں سے کھدائی کی۔ مٹی گہرائی تک سخت تھی۔ پھاوڑا چلا چلا کر اس کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے اور پھر پھٹ گئے۔ وہ زومبیوں کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتا تھا۔ لیکن نہیں۔
جب گڑھا اتنا گہرا ہوگیا کہ اسے قبر کہا جائے تو لالی کو اندر بٹھا دیا۔ اس نے اس کی پیشانی سے بال صاف کیے اور ان آنکھوں میں جھانک کر آخری مرتبہ ان میں پیار جگانے کی کوشش کی۔ ناکامی مقدر تھی۔ "معافی چاہتا ہوں"۔ اس نے گہرا سانس لیا۔
وہ دیر تک قبر میں اس دھاگے کو پکڑے بیٹھا رہا جو لالی اور اس کے درمیان اکلوتا رابطہ تھا۔ وہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا، لیکن اس کے وزن نے اسے توڑ دیا۔ وہ آنکھ جھپکنا بھول گئی تھی۔ لالی کے دونوں ہونٹ ایک دوسرے الگ ہوئے اور نحیف، حرارت سے خالی سپاٹ آواز برآمد ہوئی۔
"میرے دیوتا، میرے خدا"۔
پھر مکمل خاموشی طاری ہوگئی۔ یہ چند الفاظ جو نطق کے سانچے میں ڈھلے اسے مزید غمگین کر گئے۔
وہ روتے ہوئے اس کے اوپر جھک گیا۔
***
اس نے زومبیوں کی قیادت سنبھال لی۔ نئے نئے جوان ورغلائے جاتے اور ٹریننگ کے بعد اس کی فوج میں شامل ہو جاتے۔ دیوتاؤں کی بادشاہت میں وقت ذرا مختلف انداز میں چلتا ہے۔ سال ہا سال کبھی ایک دن یا پھر کئی صدیاں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ دن گزرے یا سال، پتا ہی نہ چلا۔ فوج بڑھتی گئی۔ دشمن ختم ہوتے گئے۔ دوست یا دشمن جو بھی مر جاتا زومبیوں کی فوج میں شامل ہو جاتا۔
دیوتاؤں کی مجلس کی وہ قیادت کرتا اور خاموش رہتا۔ ہنسی اس کے لبوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئی۔ دیوتا انسانی خرابیوں سے مبرا ہوتے ہیں۔ بولتا تو صرف حتمی فیصلہ سنانے کے لیے۔ کس کی مجال تھی کہ اس کے حکم کی سرتابی کرتا۔
اس کے بغیر باغ اجڑ گیا۔ باڑ پر شہد کی مکھیوں نے چھتے لگا لیے۔ پھول پودے مرجھا گئے۔ جنگلی بیری اور کانٹے دار جھاڑیاں ہر طرف پھیل گئی تھیں۔ اس کا دل اب کسی کے لیے نہیں دھڑکتا تھا۔
***
وہ الوہیت کا حامل تھا۔ لوگوں کی زندگی موت کے پروانے جاری کرتا۔ ہر کامیابی کے بعد جشن ہوتا۔ دیوتاؤں کا جشن ہو اور پینا پلانا نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ یہ اتہاس تو ازل سے لکھ دیا گیا ہے۔ مہا دیوتا جام پر جام لٹا رہا تھا۔ دیویاں اور اپسرائیں اس کا دل بہلا رہی تھیں۔ وہ ہوش میں رہتے ہوئے مدہوش تھا۔ لونڈیاں پیالے بھر بھر لٹا رہی تھیں۔
جو ذرا بہک جاتی اس کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا۔
خون دیوتاؤں کو فرحت بخشتا ہے۔
مہادیوتا اس کے پاس آیا۔ کمر میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگا، "ہر وہ انسان جو ہمارے احکامات پر من و عن عمل نہ کرے اسے قتل کر دینا۔ دیوتاؤں کی بادشاہت میں معافی نہیں ہوتی۔ قتل و غارت امن کی بنیاد ہے"۔
سودھارا بنا مسکرائے بولا، "ہم نقصان پہنچاتے ہیں کہ انسان محفوظ رہے"۔
"امن خون کی دھار سے لکھا جائے گا۔ کل نیا فرمان جاری کرو۔
مقتول ہماری فوج بنتے ہیں۔ انہیں زندہ کرو اور اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرو"۔ مہا دیوتا ایک اور جام پیتے ہوئے بولا۔
"مہا دیوتا پھر آپ بھی ہماری فوج میں شامل ہو جائیں"۔
"کیا کہا؟"
اس سے پہلے کہ اسے سمجھ آتی کنیزوں کے لاشے میں حرکت ہوئی اور زومبیوں کے اس نئے جتھے نے مہادیوتا کو گھیر لیا۔
"رک جاؤ"۔ وہ چلایا۔
کیا زومبی بھی کبھی رکے ہیں؟
مہا دیوتا اپنی طاقت آزما رہا تھا۔ زومبی گرتے پھر اٹھنے کے لیے۔ سودھارا نے ان تاروں کو توڑ دیا جو مہا دیوتا کے دماغ سے نکل رہی تھیں اور پھر اس دھاگے کو بھی تلف کر دیا جو باپ اور بیٹے کے رشتے کو جوڑے ہوئے تھا۔
سودھارا کی طاقت کے سامنے دیوتاؤں کا دیوتا بھی نہ ٹھہر سکا۔
ایک زومبی نے اپنی لٹھ مہادیو کے سر پر ماری تو وہ تیورا کر زمین پر گرا۔ سودھارا بولا، "یہ وہ قسمت ہے جو زومبیوں کے امام نے اپنے باپ کے لیے لکھی ہے۔ کیونکہ زومبی رشتوں کو ہمیشہ پامال کرتے ہیں"۔
ہال سے باہر جاتے ہوئے سب کو مخاطب ہوا، "یہ دنیا زومبیوں اور ان کے خدا کے بغیر زیادہ خوبصورت تھی"۔
***
دور پہاڑی کے دامن میں واقع جنگل میں لمبی لمبی گھاس، جنگلی بیری اور جھاڑیوں پر بادلوں نے چھاؤں کی ہوئی تھی۔ رات بھیگ چکی تھی۔ پو پھٹنے میں کافی وقت تھا۔ یہ اس کے لیے کافی تھا۔ اب تو وہ بہت طاقتور ہو چکا تھا۔ لیکن کسی بھی دیومالائی طاقت کو استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مٹی کھودتا جا رہا تھا۔ افق پر شفق بکھرنی شروع ہوئی تو منزل سامنے نظر آئی۔
وہ گڑھے میں اترا جہاں لالی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
"میں نے اسے قتل کر دیا"۔
لالی خاموش تھی۔
"میں نے مہا دیو کے ساتھ وہ کیا جس کے لیے اس نے مجھے تیار کیا تھا"۔
پھر برسوں سے عشق و محبت کے اٹھائے رنج کو اس کے پہلو میں لٹا دیا۔
تمام تاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توڑنے سے پہلے آخری مرتبہ ایک زومبی کو بلایا کہ قبر پر مٹی ڈال کر اسے ہموار کردے۔
وہ آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔ اس کے ہونٹ خاموش تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے، بالکل گلاب کی کلی کے مانند: ان میں ہلکی سے لرزش پیدا ہوئی۔ چہرے پر مقدس تبسم کھل رہا تھا۔ وہ تبسم جس میں لالی کی خواہش اور پیار کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کی عظمت کا عنصر شامل تھا۔
فتح مندی اور ظفر یابی کا تبسم۔
خداوندی تحکم نہیں۔
انسانی تبسم۔