فتہ بھر اپنی امڑی سینڑؒ (مادرِ گرامی) اور اپنے جنم شہر ملتان میں گزار کر پچھلی شام جب جنم شہر سے رخصت ہونے کیلئے بس میں سوار ہو رہا تھا تو آنکھیں بھیگ گئیں۔ جب بھی امڑی سینڑ کے شہر میں ایک آدھ یا چند دن بسر کرکے واپسی کا سفر شروع کرتا ہوں ایک گہری اُداسی طاری ہوجاتی ہے۔ چند برس ہوتے ہیں جب میں ملتان سے واپس جانے کیلئے بس میں سوار ہوا تو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ دوسری سمت کی نشست پر بیٹھے ایک مسافر نے کہا "سئیں حوصلہ کیجے"، جی میں نے بے دلی سے جواب دیا، ایک آدھ ساعت گزرنے کے بعد اس مسافر نے پوچھا کوئی قریبی عزیز بچھڑ گیا ہے؟
جی نہیں میں خود اپنی لاش اپنی ماں کے شہر سے اپنے ہی کاندھوں پر لادھے جارہا ہوں، مسافر نے منہ سے تو کچھ نہ کہا مگر اگلے چار سوا چار گھنٹوں کے سفر میں وہ جس طرح مجھے دیکھ رہا تھا اس سے یہی لگا کہ وہ سمجھ رہا ہے کہ میں پورا نہیں تو آدھا پاگل ضرور ہوں۔
یا پھر وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا مرد ہے جو رو رہا ہے، ہمارے ہاں صدیوں سے کوڑے برساتی متھ یہ ہے کہ مرد نہیں روتے، کیوں؟ زیادہ تر کا خیال ہے کہ یہ مردانگی کی شان کے خلاف ہے ہم اور آپ نے کرامتوں والے بابوں کے بارے میں سنا اور سنتے ہیں کہ وہ پیدائش کے وقت مسکرا رہے تھے یا کچھ وظائف پڑھ رہے تھے۔
خیر وہ بزرگ تھے کچھ بھی کرسکتے تھے میں تو لوگوں کے درمیان رونے سے نہیں شرماتا کیوں شرماوں بچھڑنے والے یاد کسی سڑک سفر یا دفتر میں آئیں اور رووں گھر جاکر کسی گوشہ تنہائی میں یہ کیا بات ہوئی؟
سچ یہ ہے کہ جب اور جہاں جدائیوں یا زمانے کے ہاتھوں ملے زخم رسنے لگیں رو دیتا ہوں میری بیٹی نے ایک دن مجھ سے پوچھا تھا "باباجانی آپ دنیا میں سب سے زیادہ محبت کس سے کرتے ہیں؟" بیٹی کی پیشانی پر بوسہ دیتے وقت میری آنکھیں بھر آئیں آواز حلق میں پھنستی محسوس ہوئی لیکن میں نے اسے بتایا جانِ بابا میری محبت کے چار حصے ہیں بالکل مساوی چار حصے میں اپنی مادرِ گرامی اور آپا اماں کے بعد تم سے اور ہرحال میں ساتھ نبھانے والی شریک حیات سے کتابوں اور دوستوں سے محبت کرتا ہوں" بیٹی نے بلاتوقف ایک سوال اور کیا باباجانی ان چار حصوں کی محبت سے بڑھ کر بھی ہے؟ بیٹی کو سینے سے لگاتے ہوئے میں نے کہا ہاں باباکی جان، اس نے پوچھا کون؟ میں نے کہا جنابِ سینڑ پاک بتول سلام اللہ علیہا۔۔
آپ ابتدائی سطور پر حیران نہ ہوں میں جب بھی ملتان سے واپس آتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی آنکھیں اور دل امڑی کے شہر میں چھوڑ آیا ہوں۔ میری امڑی کا شہر ملتان کئی ہزاریوں کا سفر طے کرچکنے والا ایک زندہ اور روشن شہر ہے۔ گزشتہ روز مجھے برادر عزیز محمود مہے نے کہا "ہمارا دل کرتا ہے آپ اپنے شہر میں آن بسیں"۔ عرض کیا میری خواہش یہی ہے کہ بونس کے باقی کے دن جنم شہر میں بیتاوں اور جنم شہر کی مٹی نصیب ہو لیکن ہر خواہش کہاں پوری ہوتی ہے۔ یہی سچ ہے آپ یوں سمجھ لیجے کہ یہ اس بدنصیب کی حسرت بھری خواہش ہے جو ساڑھے آٹھ نو برس کی عمر میں ماں کی دہلیز اور جنم شہر سے بچھڑا تھا۔
زندگی کا اب تک کا سفر اپنی مرضی سے طے کیا۔ محمود آباد کراچی کی گلیوں میں خوانچہ لئے صدائیں دے کر چیزیں فروخت کرنے والے بچے کی آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ نے ایسی مضبوط بنیاد تعمیر کی کہ اس نے اخبار میں بچوں کا صفحہ بنانے سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور آگے چل کر ملک کے مختلف جرائد و اخبارات کا ایڈیٹر بنا۔
اس سب کے باوجود ملتان سے بچھڑنے کا زخم بھرتا ہی نہیں فقیر راحموں کہتا ہے "شاہ تم اس زخم کو بھرنے کب دیتے ہو تمہارے اندر بستا جنم جنم کا ملتانی انہیں کھرچتا رہتا ہے" کیا پتہ اندر کا ملتانی کھرچتا ہے یا خود مجھے عادت سی پڑ گئی ہے، ویسے اس زخم کی اپنی بات ہے بڑی بات یہ کہ یہ مجھے بھولنے نہیں دیتا کہ میں وعظ والی سیدہ عاشو بی بیؒ کا بیٹا اور ملتانی ہوں۔
ان دو حوالوں کے بیچوں بیچ میں کبھی بھی اپنی پالنہار آپا اماںؒ کو نہیں بھول پاتا ان کی ممتا نے مجھے بنایا سنوارا اور آگے بڑھتے اپنی فہم کے اظہار سلیقہ عطا کیا۔
ہفتہ بھر قبل آج ہی کے دن (اتوار کو) ملتان گیا تھا پچھلی شب واپس آیا ہوں ملتان میں بیتائے سات دنوں میں کئی بار بہنوں کی قدم بوسی کی سعادت ملی ایک طویل عرصے کے بعد ساری بہنیں ملتان میں تھیں ان کے ساتھ بیٹھ کر جی بھر کے باتیں کیں والدین کو یاد کیا بہنیں بھائی پہ واری صدقے ہوتیں تو دل میں ان سے بچھڑنے کا دکھ خوف بھر دیتا۔
ظاہر ہے ہم چند دنوں کیلئے مادر گرامی کے شہر میں بڑی بہن کے گھر اکٹھے ہوئے تھے۔ دن گزرتے پتہ کہا لگتا ہے ان سات دنوں میں دوستوں سے بھی خوب ملاقاتیں رہیں ان ملاقاتوں میں سیاست سماجیات ملکی تاریخ کے ساتھ کج بحثی کے سرطان سمیت نصف درجن کے قریب موضوعات پر خوب تبادلہ خیال ہوا۔ کچھ دوستوں سے مل نہ سکنے پر افسوس ہے ان میں سے چند ملتان سے باہر تھے اور کچھ سے ملاقات میں مصروفیات مانع ہوئیں، دوستوں سے ملاقاتوں اور کچہریوں (مجلسوں) کے علاوہ کچھ وقت نکال کر شہر کی سیر کی۔
افسوس کہ اب اپنی علالت کے باعث زیادہ پیدل نہیں چل پاتا اس لئے ہوٹل سے نکل کر ایک رکشہ لیا اور شہر کے مختلف حصوں میں "رکشہ گشت" کیا۔
ہائے وہ بھی کیا دن تھے جب چوک خونی برج سے فصیل کے اندر آباد شہر میں داخلے کیلئے سیڑھیاں چڑھتا اور قدیم شہر کے بھول بھلئیوں والے راستوں سے گزرتا ہوا لوہاری گیٹ کی میڈیسن مارکیٹ کے پہلو والی سیڑھیوں سے نیچے اتر کر کچہری جانے والے ٹانگے پر سوار ہوجاتا تھا۔
کبھی پاک دروازہ سے اندرون شہر میں داخل ہوتا صرافہ بازار سے گزرتے ہوئے دربار موسیٰ پاک کے بلند گیٹ کے ساتھ بنے کرسی نما تھلے پر سستا لیتا پھر اگلا پڑاو مسجد ولی محمد کی سیڑھیوں پر ہوتا۔
ان سارے راستوں کا نقشہ اور پڑاو کے مقام ذہن میں نقش ہیں مگر اس کا کیا کیجے کہ اب چند گز سے زیادہ چلا نہیں جاتا بسا اوقات تو کمرے کے اندر بھی اسٹیک کے سہارے چلنا پڑتا ہے ہفتے کی دوپہر ملتانی منڈلی کا کٹھ تھا یہ ملتان میں آخری مصروفیت تھی اس دوران ہمارے وکیل بابو ساجد رضا تھہیم ایڈووکیٹ نے کسی بات پر کہا کہ
"مرشد گھابریں نئیں اجنڑ تیں بہوں جیونڑیں"۔۔
بے ساختہ میرے منہ سے نکلا "جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا" بے ساختہ کہی اس بات پر منڈلی کا صدر دفتر جو منڈلی کے تاحیات قائد ملک خاور حسنین بھٹہ کی کاروباری دفتر بھی ہے قہقہوں سے گونج اٹھا۔
گزشتہ سات دنوں کے دوران ملتانی دوستوں اور پیاروں نے جنم شہر میں اترے مسافر کو خوب وقت دیا۔ ہمارے صاحب علم دوست استاد الاساتذہ پروفیسر تنویر خان نے حسبِ دستور نہ صرف دو نشستیں سجائیں بلکہ مختلف موضوعات پر گفتگو بھی رہی۔ اس دوران نجانے کیسے گفتگو کا رخ ریاستوں کے جاسوسی نظام کی جانب مڑا اور پھر قطار اندر قطار نہ تھمنے والے انکشافات تھے۔ حیرانی اور گاہے قہقہے ان دونوں نشستوں میں عزیزم زبیر فاروق اور اشفاق بھی شامل رہے۔
بڑے بھائی اور نامور شاعر سید قمر رضا شہزاد ہمارے ایک ملتانی آستانے، آستانہ عالیہ حیدریہ حسینیہ شاکریہ کتاب نگر کے گدی نشین برادر عزیز شاکر حسین شاکرکے ہمراہ تشریف لائے دونوں مہربانوں نے طالبعلم کو کتابوں کی سوغات عنایت کی ان کتابوں پر الگ سے بات کریں گے۔
اسی طرح ہمارے مہربان ملتانی دوست اعجاز حسین صدیقی نے روایتی ملتانی ناشتے اور برادرم خالد بخاری ایڈووکیٹ سابق چیئرمین ڈرگ کورٹ نے پرتکلف عشایہ کا اہتمام کیا ہردو محفلیں ملتانیوں خوشبو سے مہکتی رہیں عزیزانِ گرامی ملک سلیم دانیال گھلو اور شہزاد شفیع کے ساتھ خوب نشست جمی تاریخ کے اوراق الٹے گئے کچھ دوستوں نشستوں کے ساتھ کتابوں کی سوغات پر اگلے کسی کالم میں باتیں کریں گے۔