درجن سے زائد موضوعات منہ پھیلائے دھمال ڈال رہے ہیں مگر جی یہ چاہتا ہے کہ سیاست ریاست اور تاریخ کے کوچوں سے نکل کر علم و ادب کی دنیائوں کا رخ کیا جائے۔ عرب کے بے مثال شاعر حاذق سے بات شروع کی جائے۔ وہی حاذق جس نے اموی خلیفہ کے بھرے دربار میں کہا تھا "بھائیوں کا گوشت کھاتے ہو، مجبوروں کا لہو پیتے ہو، وقت پلٹا موسم بدلے تو وہی کاٹو گے جو بو رہے ہو، جو پایا اور چھینا ہے سب زمین کھا جائے گی والی صداقت بھول جانے والو شور و شین سن لو قدرت کا فیصلہ صادق ہوکر رہے گا، خاک اڑے گی اور تم گم ہوجائو گے تاریخ میں، سامان عبرت بنتے ہیں وہ لوگ جوکھاتے نہیں شکم میں بھرتے ہیں"۔
وریطہ بن مغیان عدی جس نے کہا تھا "لوگ بس علم اور شجاعت کو یاد رکھتے ہیں جو انصاف نہیں کرتے انہیں سوالِ انصاف زیبا نہیں، زندگی ان پر بوجھ بنتی ہے جو خود سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوں"۔
جناب عبیدؒ یاد آئے کہا تھا "جو کہہ دیا گیا سو کردیا گیا۔ سچ تھا یا جھوٹ، منہ سے نکلی بات کے بارے میں اب تیرے عذر و معذرت سے کیا حاصل "۔
کبھی کبھی عجم والوں پر حیران ہوتا ہوں۔ قبل از اسلام کی عربی شاعری کو زمانہ جاہلیت کی شاعری کیوں کہنے پر مُصر رہتے ہیں۔ بھلا زمانے بھی "جاہل" ہوتے ہیں کیا۔ لوگ اپنا کج زمانوں پر کیوں ڈالتے ہیں اپنے تعصب کی گندگی ادوار پر کیوں؟ بہت غوروفکرکے بعد ایک ہی بات سمجھ آئی وہ یہ کہ زعم کی دیمک جنہیں چاٹ جائے وہ کلام اور صاحب کلام کا اعتراف کم ہی کرتے ہیں حالانکہ بڑائی کا اعتراف بذات خود بڑائی ہی ہے۔
ہم حسانت کو یاد کرتے ہیں وہی جس نے کہا تھا "اپنے دفاع کے لئے پورا پورا سامان کرلے کیونکہ معاملہ بحث و تکرار سے آگے گزرچکا ہے۔ میں نے ایک ایسی جنگ کا بوجھ تجھ پر ڈالا ہے جس کے باعث مرد بزرگوار (جہاندیدہ) کو سادہ پانی سے بھی اچھو لگنے لگتا ہے" اور عروہ جس نے جواب میں کہا تھا "اگر تونے جنگ کا بوجھ مجھ پر ہی ڈال ہی دیا ہے تو پھر میں بھی کوئی گیا گزرا نہیں ہوں اور نہ میرے ہتھیار بودے ہیں"۔
امروالقیس کہتے ہیں، میری آنکھوں نے آنسو صرف اس لئے ٹپکائے ہیں کہ تو نے اپنے (ان) دو تیروں سے ایک دل پاش پاش کیا دس (کی دس) قاشوں پر ہاتھ مارے"۔
اوراق الٹے جارہا ہوں، ایک سے بڑھ کر ایک باکمال شاعر ہے۔ طرفہ، امروالقیس، حارث، زہیر، عمرو بن کلثوم، عبید، حمزہ پھر حاذق ہے۔
امروالقیس کہتے ہیں"رات کو کوندتی ہوئی بجلی نے مجھے سونے نہ دیا۔ اس کی چمک قلعہ کہسار پر روشنی کرتی رہی"۔ امروالقیس کے والد اس کے بچپن کے دنوں میں قتل ہوگئے تھے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے اس نے ایک موقع پر کہا "اس نے کم سنی میں مجھے گنوادیا اب جب میں بڑا ہوں تو اس کے خون کا بوجھ بھی مجھ پر اترا ہوا ہے۔ آج کا ہوش ہے نہ کوئی کل کا کام۔ آج شراب و شکم ہے اور کل معاملے کا حساب"۔ ایک اور موقع پر امروالقیس یوں گویا دکھائی دیتے ہیں، "اس بازوایذا کو ذرا دور ہی میں رہنے دو اور اگر تم نے ترک تعلق کی ٹھان ہی لی ہے تو پھر یہ کام خوش اسلوبی سے کرو"۔
امرو نے کسی اور موقع پر یوں بھی کہا "ساتھیو! ٹھہرو کہ ہم گریہ کریں محبوب ک منزل کی یاد میں۔ پھر گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے کہا جب طاہر ابھی آشیانوں میں ہی ہوتے ہیں میں ایک تنومند گھوڑے کو لے کر تھکتا ہوں جس کے بدن پر رواں بہت کم ہے اور جو جنگلی جانوروں کے لئے زنجیر پا کا حکم رکھتا ہے۔ کسی طرف سے انہیں نکلنے نہیں دیتا۔ قیس کے ایک قصیدے کا مطلع کچھ یوں ہے "اے مٹے مٹے نشانوں صبح بخیر۔ مگر کیا بیتے دنوں میں بسنے والوں کے بخیر ہونے کی بھی کوئی صورت ہوسکتی ہے"۔
کیا کمال کی بات کہی اس امروالقیس نے عرب زبان میں ضرب المثل بن گئی۔ "تم کمزور شخص سے بڑھ کر کسی کو ڈنگ مارنے والا نہ پائو گے اور سدا مغلوب رہنے والے سے زیادہ کسی کو غلبہ جتانے والا نہ دیکھوں گے"۔
فضیل بن عیاض یاد آگئے، "لوگ بھی عجیب ہیں تکبرو و نخوت سے ایسے چلتے ہیں جیسے مرنے کے لئے پیدا ہی نہیں ہوئے۔ کوئی سمجھائے زندگی امانت ہے خیانت بے نبسوں کا شیوہ ہے۔ زہیر کہتے ہیں"میرے پاس زندگی کا وہ تجربہ تھا جو اس کے پاس نہ تھا سو میں نے اس سے کہا دھیان میں رہے میں تو ایک خواب دیکھ رہا ہوں جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے"۔
ذہیر ہی کہتے ہیں"اگر مدح وستائش حیات جاودانی عطا کرسکتی تو اے میرے ممدوح حرم تو کبھی نہ مرتا مگر کیا کیجئے کہ مدح ستائش سے عمر ابد حاصل نہیں ہوتی"۔ زہیر اعلیٰ انسانی اوصاف کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں"جب تم اس کے پاس کچھ مانگنے کو آتے ہوں تو دیکھتے ہو اس کا چہرہ یوں کھل ٹھتا ہے جسے تم جو کچھ مانگ رہے ہوں مانگ نہیں رہے بلکہ اسے عطا کررہے ہو"۔
جنگ و جدل سے بیزار ذہیر نے ہی تھا، "میں نے موتوں کو دیکھا ہے کہ ایک شب اونٹنی کی طرح اندھادھند ہاتھ پائوں مارتی ہیں جو ان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اسے مارڈالتی ہیں اور جس کسی سے چوک جاتی ہیں وہ عمر دراز پاکر بڑھاپے کی انتہا کو جاپہنچتا ہے"۔ قدیم عربی ادب کے شاعران باکمال کے اشعار کو عربی بان میں مثالوں کے طور پر بھی پیش کیا جاتا رہا۔
اشعار کی زبان میں حکیمانہ باتیں ہیں، علم و ادب کا سرمایہ ہیں۔ ذہیر نے کیا خوب کہا "کتنے ہی خاموش لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر تم بڑے متاثر ہوتے ہو جبکہ ان کی کمی بیشی کا حساب ان کی گفتار میں پنہاں ہے۔ انصاف کا نصف تو اس کی زبان سے عبارت ہے اور نصف اس کا دل ہے۔ بس گوشت اور خون کا پتلا باقی بچتا ہے۔ غریب الوطنی میں جو دوستوں کو بھی دشمن تصور کریں وہ عزت کھو بیٹھتے ہیں اور کوئی بھی ان کی عزت نہیں کرتا"۔
عبید عربی ادب کے بلند پایہ ناموں میں سے ایک ہیں۔ اپنے بھائی کی وفات پر عبید نے کہا، "ہم بوسیدہ ہوگئے مگر آسمان پر ابھرتے یہ ستارے بوسیدہ نہیں ہوتے اور ہمارے بعد گھر اور عمارتیں جوں کی توں کھڑی رہ جاتی ہیں۔ سو اگر ہمارے درمیان زمانے نے جدائی ڈال دی ہے تو جزع نزع کا کوئی مقام نہیں کیونکہ ایک نہ ا یک دن ہر انسان جدائی کا داغ دکھاکر ہی رہے گا، مال اور اقارب ہیں ہی کیا؟ بس امانتیں اور ناگزیر ہے کہ امانتیں ایک نہ ایک دن لوٹادی جائیں"۔
عبید نے ہی کہا تھا، وہ لوگ رفعت ہوگئے جن کے قرب میں جینے کا لطف تھا اور میں اس گئی گزری کھیپ میں بچ رہا جو خارش زدہ اونٹ کی جلد کی مانند ہے کہ جو پاس آئے مبتلائے اذیت ہو"۔
کتابوں کے اوراق الٹتے رہنے سے زندگی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ انسان تو سدا کا طالب علم ہی ہے آغوش مادر سے دھرتی ماں کی آغوش میں جاسونے کے سارے درمیانی لمحوں میں، علم سے اعلیٰ و ارفع نعمت اور کیا ہے بھلا؟
تعصب و جہل سے نجات اسی طور ممکن ہے کہ آدمی طالب علم رہے پڑھ لینے، سمجھ لینے اور ہونے کا زعم، جوان سے بچ رہا وہی زندہ رہا۔