1. ہوم
  2. کالمز
  3. مرزا یاسین بیگ
  4. آلمی اردو کانفرنس

آلمی اردو کانفرنس

دنیا کے کسی بھی خطے میں جب جب عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوتی ہے دل میں موہوم سا خیال آتا ہے کہ کاش اس کانفرنس میں ہمیں بھی مدعو کیا جاتا مگر پھر فوراً ہی اس خیالِ مشتبہ پر ہم اپنے ہی گال پر تین چار چیڑیں مار کر توبہ کرلیتے ہیں کہ چھوٹا دماغ بڑے خواب۔

عالمی اردو کانفرنس کے مدعوئین ہمیشہ عالمی سطح پر جانے پہچانے ادیب و شعرا ہوتے ہیں ان کی صف میں جگہ بنانا عیدین کی نماز کی پہلی صف میں جگہ حاصل کرنا جیسا ہے۔ ایسی کانفرنسیں اردو کے فروغ کیلئے ہوتی ہیں اور اس میں مہمانان خاص کیلئے وہی جگہ پاتے ہیں جو ڈھیروں کتابیں اور تعلقات رکھتے ہوں۔ جن کا قلم ایسا لکھتا ہو جس سے ہر ظالم اور برائی کا سرقلم ہوجاتا ہو۔

یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ صاحب قلم اپنے خرچے پہ ہوائی ٹکٹ اور تحائف خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کانفرنس کے بعد منتظمین کو کسی چار پانچ اسٹارز والے ہوٹل میں مدعو کرنے کے وسائل رکھتا ہو اور منتظمین کی وہ خوبیاں بھی گنواسکتا ہو جو مستقبل بعید میں ان کی شخصیت کا حصہ بن سکتی ہوں۔

اردو کانفرنس کا فائدہ اردو کے علاوہ ہر کسی کو پہنچتا ہے۔ اردو چونکہ ماں ہے اس لئے وہ اپنا فائدہ بھی بخوشی بچوں کے حوالےکردیتی ہے۔

کانفرنس کے نتیجے میں اردو دان بخوشی دو حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ جنھیں مدعو کیا جاتا ہے ان کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں اور جن کا شمار مرحومین معاف کیجئےگا محرومین میں ہوتا ہے۔ ان کے منہ پھول جاتے ہیں اور منہ سے کانٹے جھڑتے ہیں۔ خرچے نکال کر جو کچھ بچتا ہے اس کا حساب کتاب آخرت کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

عام لوگوں کیلئے یہی کافی ہوتا ہے کہ جن عظیم ادیب و شعرا کو وہ تصاویر میں دیکھتے رہے ہیں ان کے ساتھ گھس پٹ کر گروپ فوٹو میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر مشہور شخصیات کے ساتھ تصاویر کھنچوانا اپنی عزت کو گروی رکھنے کے مترادف ہوتا ہے مگر فیس بک پر پوسٹ کا شوق سر پہ ایسا سوار ہوتا ہے کہ اچھا بھلا شخص کھانا اور تصاویر کھلتے ہی اپنی اصلیت ظاہر کردیتا ہے۔

غرض یہ کہ عالمی اردو کانفرنس آلمی اردو کانفرنس بن جاتی ہے اور شہر میں جن ادبی شخصیات و گروپ کے درمیان ان بن ہوجاتی ہے اسے پاٹنے میں کم از کم چھ ماہ لگ جاتے ہیں اور اگلے چھ ماہ بعد پھر ایک نئی عالمی اردو کانفرنس کی تلوار سر پہ لٹک رہی ہوتی ہے۔