1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. مرزا یاسین بیگ/
  4. موٹی

موٹی

"موٹی" ایک طنزیہ لقب یا پکار ہے، جو فربہ خواتین پر چسپاں کیا جاتا ہے۔ یہ معاشرتی طور پر اس قدر عام ہے کہ کبھی سوچا ہی نہیں گیا کہ ہم کسی کو موٹی کہہ کر اس کا کس قدر دل دکھاتے ہیں۔

شادی کے بعد موٹی کہلانے سے دل اس قدر نہیں دکھتا، کیونکہ پکاری جانے والی یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتی ہے کہ کہہ لو جو کہنا ہے، کیا فرق پڑتا ہے مگر کسی غیرشادی شدہ نوجوان لڑکی اس تخاطب کا نشانہ بنے تو گویا اسے سب سے الگ کرکے ایک ایسے زندان میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جہاں نہ صرف اس کی دیگر تمام خوبیاں بھی نمو پانے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہیں، بلکہ اس کی قسمت و زندگی کو بھی دیمک لگ جاتی ہے۔

اس اہم معاشرتی رویے کو لےکر ایک پورے ناول کی بنت کی ہے ثمینہ مشتاق نے جو آج کے جواں عہد کی ایک مشّاق، رواں، بصیرت افروز ادیبہ ہیں۔

ثمینہ نے کم وقت میں اچھوتے موضوعات کو اپنے قلم کا موضوع بناکر کہانی، افسانہ و ناول نگاری میں اپنا نام شامل کروالیا ہے۔ وہ ناصرف ادبی رسالوں میں لکھتی ہے، بلکہ ڈائجسٹوں کی کمرشل رائٹنگ میں بھی اپنے آپ کو نمایاں کرلیا ہے۔ خواتین کے ڈائجسٹوں میں ان کے شائع ہونے والے افسانے، ناولٹ اور ناول خواتین میں مقبولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔

زیرِ تبصرہ ناول "موٹی" بھی دوشیزہ ڈائجسٹ میں قسط وار شائع ہوکر لاکھوں خواتین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ اس ناول کو ہر طبقے کی خواتین کی جانب سے پذیرائی ملی ہے اور "موٹی" کا کردار فربہ خواتین کی جذبات کا ترجمان بن گیا ہے۔ یہ ایک ایسی موٹی لڑکی کی کہانی ہے۔ جس نے اس طعن و تشنیع کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ اس معاشرتی بےرحمی کو اپنی مثبت جدوجہد کا نکتہ بنایا۔ اس نے ثابت کردیا کہ جسمانی ساخت و پیمائش کی بنیاد پر سب کا نشانہ بننے والی صرف آنسو بہانے اور اپنی جائز خواہشات کی قربانی دینے کیلئے پیدا نہیں ہوئی ہے۔ اسے بھی زندہ رہنے، ہنسنے بولنے اور زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ ایک اچھے فیگر والی لڑکی کو۔

ناول "موٹی" میں ثمینہ کا قلم اتنی سرعت اور بانکپن سے چلا ہے کہ موٹی نے کسی طعنے کو دل کا پھپھولا نہیں بنایا۔ وہ منفی رویوں والے رشتوں کے بیچ اپنے اندر کے ٹیلنٹ کو استعمال کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتی رہی اور جنھوں نے اسے ریجیکٹ کیا یا اہمیت نہ دی وہ ان کی سوچ کو روندتی ہوئی اپنے مقصد کی جانب آگے ہی آگے بڑھتی چلی گئی۔

یہ سب کچھ ایک تبصرے میں کہہ دینا آسان ہے، مگر اسے ایک ناول کی شکل میں اس طرح ڈھالنا کہ پڑھنے والی کی دلچسپی ہمیشہ برقرار رہے اور وہ ناول کی اگلی قسط کا بےچینی سے انتظار کرے یہ صرف ناول نگار کے قلم کا کمال ہوتا ہے۔

ثمینہ مشتاق کی اہم خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے موضوعات چنتی ہیں۔ جو ہر ایک کے دل میں موجود ہوتے ہیں اور وہ ان کے دل کی آواز بنتی ہیں۔ پھر ناول کے مرکزی کردار کو دیگر ایسے کرداروں کے ساتھ آگے بڑھانا جو مول تو بنیں مگر جھول نہیں، یہ اس ادیبہ کا خاص امتیاز ہے۔ ان کا ہر کردار جو چاہے چھوٹا ہو یا بڑا کہانی کی دلچسپی کو بڑھاتا ہے۔ "موٹی" میں موجود ہر رشتے اور کردار کی اپنی ایک خاصیت ہے۔ ان کے اچھے، برے پن سے ناول کو جاگ اور احساس ملتا ہے۔

ثمینہ مشتاق کے قلم کا ایک اور جادو ان کے کرداروں کے ڈائیلاگ ہیں۔ وہ منظر اور کردار کے مطابق ایسے جملے لکھتی ہیں۔ جو نگینے کی طرح فٹ لگتے ہیں اور قاری کے دل و دماغ میں اترجاتے ہیں۔ دکھ سکھ، غم خوشی، تنہائی بھیڑبھاڑ، خودکلامی یا جھگڑے ہر جگہ ان کے لکھے جملے منظر، کہانی اور کردار کا ساتھ دےرہے ہوتے ہیں۔

ناول کی تیکنیکی ساخت بھی ثمینہ کے بےساختہ قلم پروری کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ کوئی ان کے ناول کو لیکچر یا تبلیغ میں شمار نہیں کرسکتا۔ زندگی کی کروٹیں، حقائق کے اتار چڑھاٶ آپ کو کبھی مصنوعی نہیں لگیں گے۔ وہ سب کچھ جو زندگی اور رشتوں میں ہوتا ہے۔ وہ ان کے اس ناول میں موجود ہے۔

ثمینہ نے اپنا ایک طرز بنالیا ہے۔ ان کا قاری ان کا لکھا ایک صفحہ پڑھ لے تو بلاجھجھک ان کا نام لے لیتا ہے۔

"موٹی" نے دوشیزہ ڈائجسٹ میں جتنی مقبولیت حاصل کی اس کے بعد اس کا کتابی شکل میں شائع ہونا ضروری تھا۔ ثمینہ نے یہ کام بروقت کرکے ناولوں کے شیلف تک اپنے اس ناول کو پہنچادیا ہے۔ اب قاری کا کام ہے کہ وہ اس ناول کو خریدیں اور محسوس کریں کہ آج کی بےہنگم، بےمقصد زندگی میں کچھ لوگ اب بھی ایسے ہیں جو ماں، بیوی کی مسلسل ذمےداریوں کے درمیان وقت نکال کر اتنا کچھ اور اتنا بہتر لکھ رہے ہیں۔

مجھے قوی امید ہے کہ ناول موٹی پڑھنے کے بعد لوگوں کے ذہنوں پر سے وہ پردہ اترےگا، جو انھیں فربہ بچیوں کو زندگیوں سے الگ تھلگ کردینے کا موجب بنتا ہے۔

اچھا کام ہمیشہ اچھا کہلاتا ہے اور اس کی پذیرائی وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔