1. ہوم
  2. مزاحیات
  3. مرزا یاسین بیگ
  4. شکر ہے کیلا رنگ نہیں چھوڑتا

شکر ہے کیلا رنگ نہیں چھوڑتا

پاکستان اور کینیڈا میں ایک بڑا فرق کیلوں کا ہے۔ پاکستان میں کیلے درجن کے حساب سے بکتے ہیں اور کینیڈا میں تول کر۔ کوئی پاکستانی جب پہلی بار کینیڈا میں کیلے خریدتا ہے تو اسے انجانی سی حیرت ہوتی ہے۔ کیلے اور ترازو میں رکھ کر۔ ہم چھلکوں کے وزن کے بھی پیسے دیں۔

کینیڈا میں پہلی بار کیلے تول کر، لیے تو دل چاہا آج چھلکے بھی کھا جاؤں۔ بعد میں پتہ چلا کہ یورپ امریکہ اور نارتھ امریکہ میں کیلے تول کر ہی بکتے ہیں۔ کیلے کو گن کر خریدنے کا اعزاز پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور شاید چند دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کو ہی حاصل ہے۔

کینیڈا کا ایک سوپر اسٹور "نو فرلز" سب سے سستے کیلے بیچنے کیلئے مشہور ہے۔ یہ فرق دوسرے سپر اسٹورز کے مقابلے میں صرف چند سینٹ فی پونڈ یا کلوگرام ہوتا ہے مگر اسی سے نو فرلز کو سستے کیلے بیچنے کی شہرت ملی ہوئی ہے۔

اسٹورز میں کچے اور پکے کیلے یکساں نظر آتے ہیں۔ کبھی سبز رنگوں کا ڈھیر اور دو دن میں پیلے۔ شکر ہے کیلا رنگ نہیں چھوڑتا ورنہ ہمارے ہاتھ بار بار پیلے ہوجاتے۔

کینیڈا میں پایا جانے والا ایک بھی کیلا کینیڈین نہیں ہوتا۔ زیادہ تر کیلے امریکن ہوتے ہیں اور کچھ چین، جنوبی افریقہ اور اسپین سے آتے ہیں۔

ایک کینیڈین سالانہ 50 سے 60 کیلے کھا جاتا ہے جس کا وزن اوسطاً 18 کلوگرام بنتا ہے۔ یہ کیلے سائز میں بڑے بڑے اور خوب میٹھے ہوتے ہیں۔ کیلے پوٹاشیم اور وٹامنز سے مالامال ہوتے ہیں اور اسے بچے، مرد اور خواتین یکساں شوق سے کھاتے ہیں۔

اتنے کیلے کھانے کے باوجود کبھی کیلے کا چھلکا ادھر ادھر پھینکا نظر نہیں آتا کیونکہ کینیڈین سوک سینس کی قدر کرتے ہیں۔ یہاں لوگ برف سے پھسل کر تو گر جاتے ہیں مگر کیلے کے چھلکے سے پھسل کر گرنے کا واقعہ شاید ہی کبھی سنا گیا ہو۔ کیلا کبھی خود نہیں پھسلتا مگر اس پر پیر پڑجائے تو اچھے اچھے پھسل جاتے ہیں۔

بنگالی کچے کیلے کو سبزی کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ کاش کیلے کے چھلکوں کا بھی کوئی مصرف ہوتا تو ہمارے آدھے پیسے ضائع نہ جاتے۔ ایک خبر سے پتہ چلا ہے کہ کیلوں کے چھلکے سے کھاد بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔